ابن انشاء کی تصنیف ، اردو کی آخری کتاب – صبا منیر
کتابپرتبصرہ
اردوکیآخری_کتاب
مصنف
ابنِ_انشاء
انشاءجیھےنامانہی_کا!!!!
چاھوتوانسےملوائیں!!!!!
میں نے کتابیں تو بہت سی پڑھی ھیں عموماً وہ کتاب پڑھنے کے لئے چنا کرتی ھوں جس میں میری دلچسبی کا خوب سامان ھو.
مزاح نگاری سے مجھے قدرتی سا لگاؤ ھے. سنجیدہ مزاح مجھے محظوظ کرتا ھے. جس میں کوئی سبق پوشیدہ ھو یا پھر ہدایات. تنبیہہ. یا چونکا دینے والی باتیں. ایسی باتیں مزاح کے رنگ میں زیادہ سمجھ آتی ھیں اور اثر بھی رکھتی ہیں اور عام انسان کو متوجہ کر لیتی ہیں.
ایسا ھی مزاح لکھنے میں ملکہ حاصل ھے..
ابنِ_انشاء
کو… آج میں انکی کتاب…
اردوکیآخری_کتاب
پر کچھ کہنا چاھوں گی.
اردو کی آخری کتاب محمد حسین آزاد کی کتاب “اردو کی پہلی کتاب” کی پیروڈی ھے سب بخوبی واقف ھوں گے پیروڈی کے معنی ھیں “جوابی نغمہ” طنزومزاح کے اس حربے کو انگریزی ادب سے کھینچا گیا ھے اور انشاء جی کی یہ کتاب اردو ادب میں ایک کامیاب پیروڈی سمجھی جاتی ھے کیونکہ ابن انشاء پیروڈی کے فن کو خوب سمجھتے ھیں. بلکہ برتتے بھی خوب ھیں ویسے تو محمد حسین آزاد کی کتاب پر پطرس بخاری بھی طبع آزمائی کر چکے ھیں لیکن انہوں نے محض تفریح کا رنگ رکھا جب کہ انشاء جی نے مزاح کے اندر مختلف پہلو چھپا رکھے ھیں جو ھماری اصلاح کا کام کرتے ھیں. مثلاً یہ کہ معاشرے کی نا انصافیوں اور معاشرتی برائیوں کو مزاح میں ڈبو کر یوں پیش کیا ھے کہ قاری پڑھنے کو بیتاب تو ھوتا ھی ھے لیکن انکا مقصد بھی سمجھ جاتا ھے اور جب اتنے خوبصورت پیرائے میں آپکی غلطیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ھیں تو قاری محظوظ ھونے کے ساتھ ساتھ ایک شرمندگی بھی محسوس کرتا ھے یہ شرم اور احساس اسکو سیدھے راستے پر لے جانے کے لئے دھکے کا کام کرتی ھے انکی مزاح میں کی گئ بات آپکو عمل پر اکساتی ھے.
اردو کی آخری کتاب 1980کےحالات پر جو روزنامے جاری ھوئے انکا مجموعہ ھے لیکن ابن انشاء سطحی کالم نگار نہیں تھے اور نہ ھی انہوں نے اس کتاب میں صحافتی زبان کا استعمال کیا.بلکہ بہت ھی عام فہم زبان کا استعمال کرتے ھوئے ایک عام قاری اور ادب کے طالب علم دونوں کو متاثر کیا.
اس کتاب کا اسلوب سلیس ھے لیکن ابن انشاء چونکہ بنیادی طور پر شاعرانہ مزاح کے حامل ھیں تو اس کتاب میں انکی نثر میں بھی قافیہ پیمائی.. لفظوں کی تکرار…
اور موسیقیت محسوس ھوتی ھے. جو ایک الگ ھی مزہ دیتی ھے قاری رکے بغیر آگے بڑھتا ھی چلا جاتا ھے ایک خمار چڑھتا ھے آپ کھو جاتے ھیں… رکنا محال ھے.
کتاب طنزیہ اور مزاحیہ فقروں سے بھری پڑی ھے..
ریاضی کا حصہ!!!!!
مغلیہ تاریخ!!!!
گرائمر!!!
کہانیاں!!!
جغرافیہ!!!! .
سائنس!!!
حکایات!!!
جانوروں اور پرندوں کا بیان ھر قسم کی معلومات کا احاطہ بہت ھی خوبی سے کیا ھے اور مزے کی بات یہ کہ قاری کے لبوں سے مسکراہٹ نہیں جاتی.
اس کتاب کو ہاتھ میں لیتے ھی جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ یہ تھی کہ انشاء جی نے دیباچہ لکھنے کا تکلف بھی نہیں کیا بلکہ کتاب کا سر ورق دیا گیا…
“نا منظور کردہ ٹیکسٹ بورڈ”
اور یہ پڑھتے ھی میری ھنسی چھوٹی اور فوراً کتاب اٹھا لی اندر کیا ھے باھر سے ھی اندازہ ھو گیا.
اور پھر پوری کتاب نجمی کے ایک سو ایک کارٹونوں سے بھری پڑی ھے. ?
اور ان کارٹونوں کی وجہ سے کتاب میں دلچسبی بڑھ جاتی ھے.
شاید اسی وجہ سے خالد احمد یہ کہنے پہ مجبور ھوئے کہ ابن انشاء کی کتاب کے دو مصنف ھیں….
ایک ابن انشاء اور دوسرے نجمی… ?
مشتاق احمد یوسفی جو خود بھی مزاح کے بادشاہ ھیں ابن انشاء کی شان میں فرماتے ھیں…
“بچھو کا کاٹا روتا ھے”
“سانپ کا کاٹا سوتا ھے”
“لیکن انشاء کا کاٹا سوتے میں مسکراتا ھے”.
اس کتاب کو پڑھتے وقت یوسفی جی کا فقرہ بار بار یاد آتا ھے.
مثال کے طور پر سبق کے آخر میں سوالات بھی پیش کرتے ھیں… جو کچھ یوں ھیں…
سوال!!! اونٹ کو مسلمان سے تشبیہ کیوں دیتے ھیں؟
کوئی کل سیدھی نہ ھونے کی وجہ سے؟
سوال…..
سبزیاں یہاں کیوں اگائی جاتی ھیں..؟
وٹامن باھر سے کیوں منگوائی جاتی ھیں؟
سوال.
محمود غزنوی نے ھندو ستان پر سترہ کیا کئے؟
2.محمودغزنوی نے سترہ حملے کس ملک پر کئے؟
3..ھندو ستان پر سترہ حملے کس بادشاہ نے کئے؟……
لکھنے کو اور بھی بہت ڈھیر ھے لیکن اب آپ اس کتاب کو خود پڑھیں گے یہ دعویٰ ھے ?
قیمت بہت کم ھے جب میں نے لی تھی تو بہت ھی کم تھی…… خرید کر پڑھیں مزہ آئے گا. انشاءاللہ
آخر میں ابن انشاء کا شعر ھے…..
ایک دن صبح جو دیکھا تو سرائے میں نہ تھا
جانے کس دیس گیا وہ دیوانہ ڈھونڈو….
?????
I like your books and ideas