اوصاف کو انٹرویو
بزرگوں کے بھید ، حدیث اور منطق، ادیب کا جھوٹ اور دیگر دلچسپ موضوعات پر عکسی مفتی کا اوصاف سے مکالمہ
عکسی مفتی کی تین کتابیں علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ عکسی مفتی نے ممتاز مفتی کے بعد تصوف پر قلم نہیں اٹھایا، ان کا خیال ہے کہ عکسی مفتی کبھی ممتاز مفتی نہیں بن سکتے ، تصوف کے موضوع پر صرف ایک کتاب ”تلاش: اللہ ماورا کا تعین “لکھی ۔ یہ کتاب بھی انگریزی میں لکھی گئی کتاب کا ترجمہ ہے۔ عکسی مفتی نے پاکستانی ثقافت کے ساتھ ساتھ برصغیر میں رچے بسے تصوف کے رنگ کو بھی خوب جانچا اور پرکھا مگر لکھنے سے گریز کرتے رہے۔غالباً وہ نہیں چاہتے تھے کہ قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کے بعد لوگ ان سے بھی عقیدت وابسطہ کر لیں۔ عکسی مفتی کا ماننا ہے کہ ان کے بزرگ بڑے لوگ تھے اور عکسی مفتی کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ایسے قارئین جو عکسی مفتی اور تصوف کے بارے میں ان کے تجربات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ مکالمہ نہ صرف قدرت اللہ شہاب ، ممتاز مفتی اور” اکیسوی صدی کے بزرگ“ کے بارے میںقارئین کی معلومات میں اضافہ کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ تفنن کا کے پہلو سے محضوظ ہونے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔
لیکھک کا حق ہے کہ وہ جھو ٹ لکھے
عکسی مفتی سے مکاملہ شروع ہوا، سید بلال قطب کی ممتاز مفتی سے پہلی ملاقات بڑی دلچسپ تھی۔ بلال کتب مفتی صاحب کی کتاب ”لبیک“ پڑھ کران سے ملنے گئے تھے۔ بلال قطب کا خیال تھا کہ طواف کے بارے میں چند سطریںمحض خیالی ہیںاور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلال کتب جب ممتاز مفتی کے پاس پہنچے تو ان کی خدمت کی جا رہی تھی، وہ اپنی نشست پر ایسے براجمان تھے جیسے کوئی شہنشاہ اپنے تخت پر بیٹھا ہو، ایسے میں بلال قطب کو گمان ہوا کہ ممتاز مفتی کی محفل میں خلل پیدا کر رہے ہیں، بلال اسی سوچ میں تھے کہ ممتاز مفتی نے انہیں اپنے قریب بلایا اورپوچھاکہ کیسے آنا ہوا؟
بلال قطب کہتے ہیں میں نے طعنہ دیتے ہوئے ممتاز مفتی سے کہا، ”میںتہاڈی کتاب خرید کہ پڑھی اے۔“ یہ سن کر ممتاز مفتی نے مختصر جواب دیا، ”اچھا کیا۔“ اس کے بعد بلال قطب نے دوبارہ کہا، ”مفتی صاحب آپ نے طواف والی جو سطریں لکھی ہیں وہ جھوٹ ہیں۔“ ممتاز مفتی بیڈ پر لیٹ چکے تھے، فوراً سے اٹھ بیٹھے اور بغیر کسی توقف کہ گویا ہوئے، ”لیکھک دا حق اے کہ او چوٹھ لکھے“۔
بلال قطب کہتے ہیں میں حیران رہ گیا کہ کوئی شخص اتنا بولڈ کیسے ہو سکتا ہے جس نے بغیر کسی توقف کہ ایسا کھرا جواب دے دیا۔ بلال قطب کہتے ہیں ، اس دن میں ممتاز مفتی کا مرید ہو گیا۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے ممتاز مفتی نے کہا ہو گا کہ جھوٹ لکھنا ادیب کا حق ہوتا ہے؟
عکسی مفتی : یہ واقعہ سن کر کہنے لگے ، ڈاکٹر نجیبہ کو کال ملائیں، انہوں نے ممتاز مفتی کے فکری ارتقا پر پی ایچ ڈی کی ہے۔
کال ریسیو ہوتے ہی عکسی مفتی نے ڈاکٹر نجیبہ سے پوچھا، بلال قطب کہتے ہیں، ممتاز مفتی نے کہا،” ادیب کا حق ہے وہ جھوٹ لکھے۔“ آپ کا کیا خیال ہے؟ ڈاکٹر نجیبہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا، ”میں نہیں مانتی، ممتاز مفتی ایسا نہیں کہہ سکتے ہیں۔“
میں نے عرض کی ، سر !گمان گزرتا ہے ایسا کھرا جواب ممتاز مفتی نے دیا ہوگا۔
عکسی مفتی نے قہقہ لگا کر کہا، مجھے بھی یہی لگتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ بزرگ سے ملاقات
سوال:آجکل کے خانقائی نظام پر کافی سوالیہ نشان ہیں، ایسے میں قدرت اللہ شہاب کے کرادر کے بارے میں بھی قیاس آرئیاں ہو رہی ہیں، کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ قدرت اللہ شہاب کر کردار کچھ عرصہ میں controversial ہو جائے گا؟
عکسی مفتی: خانقائی نظام پر جو تنقید ہوتی ہے وہ بالکل درست ہوتی ہے مگر میں قدرت اللہ شہاب کو بزرگ مانتا ہوں۔ آپ دیکھیں، اتنا بڑا آدمی تھا، شہاب نامہ جیسی ضخیم کتاب لکھ ڈالی، اس کے بعد آپ کتابوں کی تعداد پر نظر دوڑائیں۔۔ ماں جی، سرخ فیتہ، نفسانے افسانے اور بس؟ ایسا شخص کیا کچھ نہیں لکھ سکتا تھا مگر اس نے قلم ہی نہ اٹھایا۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک روز قدرت اللہ شہاب میرے پاس اور کہنے لگے آﺅ میں تمہیں بزرگ سے ملوانے لے چلوں، میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ قدرت اللہ شہاب مجھے ایک شخص کے پاس لے گئے جو خاموش بیٹھا تھا، میں بھی اس کے قریب کو کر بیٹھ گیا۔ ہم کافی دیر اس کے پاس بیٹھے رہے مگر اس نے کلام نہ کیا۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کا نام لیا، نام سنتے ہی بزرگ پر رقت طاری ہو گئی اور وہ زار و قطار رونے لگا۔ میں ان کے قریب بیٹھا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ان کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا ہے کہ ان کی قمیض بھی اس سے تھرتھرا رہی ہے۔ ہم اٹھ کر واپس آگئے، میں نے قدرت اللہ شہاب سے پوچھا کہ میں نے اس شخص میں کوئی خاص بات نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ نبی اکرام ﷺ کا نام سنتے ہی اس پر رقت طاری ہو گئی۔ اس پر قدرت اللہ شہاب نے جواب دیا، وہ صاحب دل بزرگ تھے، آپ کو ان سے دعا کروانی چاہیے تھی۔
بابوں کے بھید
سوال: اشفاق احمد ، گرو رجنیش کی کیسٹ سنا کرتے تھے ، اوشو فلاسفر تھے مگر اس کی تعلیمات مذہبی نہیں تھیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے اشفاق احمد ان کو کیوں سنا کرتے تھے؟
عکسی مفتی: جی ، یہ بات درست ہے کہ اشفاق احمد ، گرو رجنیش کی کیسٹ سنا کرتے تھے۔ گر و رجنیش کمال بولتا تھا۔ اس کی کیسٹ اشفاق احمد نے ممتاز مفتی کو بھی تھی۔ دراصل اشفاق احمد گفتا ر کو بہت پسند کرتے تھے۔ واصف علی واصف سے اشفاق کی دوستی اسی لئے بڑھی کہ واصف صاحب بہت کمال گفتگو کرتے تھے اور ان کی آواز بھی بہت خوب تھی۔ اشفاق احمد کو خاموش لوگوں میں دلچپی نہ تھی۔ قدرت اللہ شہاب خاموش رہا کرتے تھے اس لئے اشفاق احمد کی محفل ان سے کم ہوا کرتی تھی۔ بات ہو رہی تھی گرو رجنیش کی۔۔ ایسے بابوں کے بڑے بھید ہوتے ہیں۔ میں آپ کو ایسے ہی ایک بابے کی بابت بتاتا ہوں جو لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں رہا کرتا تھا۔ اسے لوگ بابا کاکی تاڑ کہا کرتے تھے۔ اس وقت میں لوک ورثہ میں ملازمت کرتا تھا۔ میں نے کیمرہ لیا اور بابے کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اس سے اجازت طلب کی کہ میں آپ کی فلم بناناچاہتا ہوں،بابے نے باخوشی اجازت دے دی۔
بابے سے میں نے دریافت کیا آپ یہاں اپنے آستانے پر کیا کرتے ہیں؟ بابے نے جواب دیا میں لوگوںکی، خصوصاً جوان لڑکوں کی سائیکو تھراپی یعنی ذہنی علاج کرتا ہوں۔ میں نے مزید پوچھا ، یہ آپ کیسے کرتے ہیں؟ اس نے کہا آپ سائیکو تھراپی کا عمل خود ملاحظہ کریں۔
میں نے دیکھا کہ اس نے لڑکوں کو ایک دائرے میں بٹھایا ۔ اس کے بعد ایک خاتون نے ان دائرے کے درمیان رقص شروع کر دیا۔ میں حیران رہ گیا ، میں نے بابے سے پوچھا یہ کیسی سائیکو تھراپی ہے ؟بابے نے جواب دیانوجوانوں میں صنفی امتیاز بہت بڑھ چکا ہے اور اسی لئے ان کی شخصیت مکمل نہیں ہو سکتی، وہ خواتین سے بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، صنف کے متعلق ان کی سوچ دقیا نوسی ہوتی ہے اور وہ اپنی زندگی میں ترقی نہیں کر سکتے۔
اس کا طریقہ شاید ہماری روایات کے اعتبار سے غلط تھا مگر وہ کام بالکل ٹھیک کر رہا تھا۔ علم نفسیات کا حاصل ہے کہ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں میں اس قسم کے مسائل پائے جاتے ہیں۔ میرے پاس وہ ٹیپ اب بھی محفوظ ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے نے مجھ سے رابطہ کیا اور وہ ٹیپ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی مگر میں نے یہ سوچ کر ٹیپ دینے سے انکار کر دیا کہ بین الاقوامی ادراے پاکستان کی مثبت ساکھ کی تشہیر کبھی نہیں کرنا چاہیں گے اور کوئی نہ کوئی منفی پہلو ہی دکھائیں گے۔
اکیسوی صدی کے بزرگ
سوال: ممتاز مفتی نے اپنی کتاب ’اوکھے اولڑے‘ میں ’اکیسوی صدی کے بزرگ‘ کی کافی تعریف کی مگر ایسے بزرگ ڈاکٹر کو کہتے ہیں میں آپ کے ہاتھ سے شفا سلب کر لوں گا۔ کیا بزرگ ایسے ہوتے ہیں؟
عکسی مفتی: ممتاز مفتی نے ’اکیسوی صدی کے بزرگ ‘ کی کافی تعریف کی مگر آخری عمر میں ان سے دور بھی ہو گئے تھے۔ آپ خود سوچیں کسی کے ہاتھ سے شفا کیسے سلب کی جا سکتی ہے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں اس قسم کے بیانات کب اور کیسے دیے جاتے ہیں۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں لاہور ہاسٹل میں تھا۔ میرے دوستوں نے مجھے بے وقوف بنانے اور دق کرنے کا ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ دوستوں میں سے ایک دوست میرے پاس آیا اور کہنے لگا، یار عکسی میں نے رات خواب مجھے ایک بہت بڑے بزرگ کی زیارت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عکسی مفتی کو داتاصاحب کے مزار پر رات دو بجے چلے کے لئے بھیج دو۔ رات کے تیسرے پہر اس کے پاس ایک بچہ آئے گا۔ اس کے ہاتھ میں چھڑی ہو گی، عکسی جب اس بچے کو اس چھڑی سے مارے گا تو وہ غائب ہو جائے۔ دراصل وہ بچہ شیطان اور اس کا نفس ہو گا۔ اس طرح عکسی نفس کی قید سے آزاد ہو جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ عربی کا اور ورد بھی مجھے بتایا، جس کے معانی تھے ، ’میں گدھا ہوں‘ یہ معانی مجھے بعد میں معلوم ہوئے اور اس پر میں بہت ہنسا۔
عکسی مفتی کہتے ہیں کہ بزرگ اور خواب کے واقعے پر یقین کرتے ہوئے وہ داتا دربار چلے گئے، ساری رات قیام کیا، بچے نے آنا تھا نہ ہو آیا۔ صبح جب دوست انہیں واپس لینے پہنچے تو انہوں نے عکسی مفتی کا مزاق اڑایا۔ اس پر عکسی مفتی نے آنکھیں گھما کر کہا: ”خاموش ہو جاﺅ، گستاخ میں تمھیں بھسم کر دوں گا۔“ یہ سن کر دوست گھبرا گئے کہ اس کی نیت تو ٹھیک تھی کہیں اسے واقعی کوئی بزرگی تو عطا نہیں ہو گئی؟
عکسی مفتی کہنے لگے ، ایسی ہی بات اکیسوی صدی کے بزرگ بھی کرتے ہیں جیسے میں نے دوستوں سے کی تھی کہ میں انہیں بھسم کر دوں گا۔ایسے بیانات صرف موقعے کی مناسبت سے خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے دیے جاتے ہیں۔
حدیث اور منطق
سوال: ممتاز مفتی نے اپنی کتاب تلاش کا اختتام لفظ محمد ﷺ پر کیا ہے، اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟
عسکی مفتی : قدرت اللہ شہاب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی مسئلے میں پھنس جائیں تو یہ خیال کریں کہ اگر یہاں حضرت محمد ﷺ ہوتے تو وہ کیا کرتے؟ اسے وہ identification with Mohammad کا نام دیا کرتے تھے۔ ممتاز مفتی جب خدا کو نہیں مانتے تھے تب بھی اور جب انہوں نے خدا کو پہچان اور مان لیا تب بھی حضور اکرم ﷺ کو عظیم ترین انسان خیال کرتے رہے۔ دراصل نبی ﷺ کی ہر بات میں منطق ہوا کرتا تھا۔مشکل باتوں کو چھوڑیں صرف خوشبو لگانے کی سنت پر غور کریں۔ آپ دیکھیں مغرب نے کیسے اس سنت کو اپنایا ہے۔ مغرب میں سب سے اچھا تحفہ خوشبو کو سمجھا جاتا ہے ۔ مہنگے سے مہنگی خوشبو آپ کو پیرس میں ملے گی۔ اب اس سنت پر غور کریں۔ مسجد نبوی بہت چھوٹی ہوا کرتی تھی۔ صحابہ دن بھر کی مشقت کے بعد مسجد میں آیا کرتے ، امراءاصحاب بھی اسی مسجد کی صفوں میں کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد پیسنے کی بدبو پیدا ہو جاتی اور یہ جو کہ قدرتی عمل ہے ۔ نماز کی صف میں کچھ صحابہ کو ناخوش گواری محسوس ہو ا کرتی مگر وہ اس کا اظہار نہ کرتے تھے۔ اس پر نبی اکرام ﷺ نے کمال ذہانت سے سب صحابہ کو حکم دیا کہ خوشبو لگائیں اور خود بھی خوشبو کا اہتمام کیا۔ اس سے کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوئی۔ مسجد میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے اللہ کے نبی نے حکم دیا کہ مل کر کھڑے ہوں۔ دیکھیں حدیث اور سنت نبوی میں کتنی ذہانت اور منطق پایا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ممتاز مفتی نے اپنی کتاب تلاش کا اختتام لفظ محمد پر کیا۔ میںاس پر ایک کتاب لکھوں گا گا جس کا عنوان ہو گا ، حدیث و منطق Logic Bhehind Hadith.