سیڑھی سرکار – سمے کا بندھن
ٹائپنگ : سیدہ بشریٰ شاہ
پتہ نہیں میں سیڑھی سرکار کیسے پہنچا
مجھ میں اک اضطراب لہریں لے رہا تھا
ایسے لگتا تھا جیسے کوئی سوکھا پتہ جھکڑ میں ڈول رہا ھو نہیں میں پتا نہیں تھامیں تو خود جھکڑ تھا منجدھار میں ناؤ نہیں تھا خود منجدھار تھا.بیٹھتا تو لٹو کی طرح گھومتا گھومے جاتا چلتا تو شرابی کی طرح ڈولتا ،لڑ کھڑا تا جھومتا ..
ایسی حالت میں الله نہ کرے کسی کو موٹر سائیکل
میسر ھو .مجھے تھا جو جلتی پرتیل چھڑکتا .اندر بھی گھاؤں گھا ؤں باہر بھی گھا ؤں گھا ؤں .اندر کا آیکسلیٹر بھی کھلا باہر کا بھی
اسلام آباد کی سڑکوں پرغراتا پھرتا بے معنی بے مقصد بے منزل .
میں نے کئی بار سوچا تھا ..الطاف چھوڑ اس سا ئیکل .کو کہیں پھینک آ ..دور بہت دور ورنہ ایک دن یہ سڑک پرلٹو بنا پڑا ھو گا .اور تیری بوندی یہاں سے وہاں بکھری پڑی ھو گی .
بس سوچتا رہا کچھ کرنے کی توفیق نه ہوئی .کیسے ہوتی اندر چرخیا ں چل رہی ھوں تو باہر گڑ گڑاہٹ تو ھو گی
بظاہر اس اضطراب کی کوئی وجہ نہ تھی میں آزاد تھا مادر پدر آزاد عیش کی زندگی بسر کر رہا تھا .پیسہ عام تھا پیچھے جاگیر تھی یونیو رسٹی میں بڑی ٹیں تھی لڑکے مانتے تھے پروفیسر جانتے تھے لڑکیاں ریجھی ہوئی تھیں .دیکھتیں تو منہ رال ٹپکتی .بس اک نگاہ التفات کی دیر تھی، پھر یه اضطراب کیسا
نہیں بے وجہ نہ تھا اب جو میں سوچتا ھوں تو وجہ تھی وہ ڈھکی چھپی بھی نہیں ..سامنے دھری تھی لیکن میں اسے جاننا نہیں چاہتا تھا .ماننا نہیں چاہتا تھا مانتا تو ٹھیس لگتی آزاد منش بهلا اندر کی چھپی ہوئی زنجیروں کو کیسے مانے ایمنسی پشن کا دعوے دار اندر کی پھپھوندی کو کیسے مانے دراصل میں ایک نہ تھا دو تھا باہر کچھ تھا اندر کچھ تھا دور ھو جاؤ تو جھکڑ چلتا ہے لٹو گھومتا ہے سمت چھوٹ جاتی ہے پھر بادیه پیما ئی گھمن گھیری .ذوں ذوں شوں شوں ایک روز چلتے چلتے چونکا. رکا جا گا کیا دیکھتا ھوں سیڑھی سرکار کے گاؤں جا رہا ھوں کہاں شہر کی ریشمی سڑک کہاں کچا راستہ خود کو روکا یه کیا کر رہا ہے احمق ؟ سنی سنائی اعتبار کر لیا؟ خود کا تماشا بناۓ گا کیا ؟
آٹھ دن کے بعد وہ ہی میں حادثہ ہوا دیکھا کے پھر سیڑھی سرکار کی طرف جا رہا ھوں رک گیا سوچ میں پڑگیا پھر دل میں “سو و ہاٹ ” کی لہر اٹھی چلو، جو دل ادھر جانے پرمچلا ہوا ہے تو ٹھیک ہے کونسی قیا مت آ جاۓ گی
یہ سارا جھکڑ دراصل الطوکی وجہ سے تھا اس کا نام انطونیہ تھا یونیورسٹی میں بھی سب اسے انطو کہتے تھی .وہ رومانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ائی تھی .جو بھی اسے دیکھتا کھڑے کا کھڑا ره جاتا پری زادنظر آتی تھی کیسے نا آتی نظر ،بھئی کوہ قاف کی جو تھی .
پہلے روز میں اسکو دیکھ کرٹھٹھکا پھر ٹیں نےسنبھالا دیا اپنی ٹیں کا بھید یه تھا لڑکیوں کو گھاس نہ ڈالو وہ پیچھے پھریں تم نا پھرو ….انطو کو دیکھا .پھر منہ موڑ لیا آپ آئے گی سالی اگرچہ دیر سے آئ مگر آئ پھر ساتھ گھومنے لگی کیوں نہ پھرتی .؟
دوسروں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے علا نیہ ریشه خطمی
ھو جاتے ہم اپنا کلف لگاۓ رکھتے تھے .کھڑ کھڑ کر کے بات کرتے
ایک روز بولی یه ہوسٹل تو گیلا کمبل ہے “
میں نے پوچھا ” کیا مطلب “؟
بولی “ڈیمپ اینڈ ڈیپرسنگ“
میں نے کہا ” وہ تو ہے لڑکیاں لڑکے جدا جدا رہیں گے تو ڈیمپ اینڈ ڈپریسنگ تو ھو گی . بولی ” جی چاہتا ہے شہر میں کوئی فلیٹ کرا ۓ پرلے لوں “
میں نے کہا ” لے لو “۔
بولی ” کوئی ساتھی بھی تو ھو جو میرے ساتھ رہے “۔
میں نے کہا ” مل جا ۓ گا “۔
بولی ” اتنا آزاد خیال کون ھو گا جو میرے ساتھ رہے گا “
میں نے کہا ہم تمہاری پرا بلم حل کر دیں گے “۔
بولی ” وہ کیسے ” .
میں نے کہا ” یہ خدمات میں سر انجام دے دوں “
بولی ” یو ڈونٹ ماینڈ اٹ “؟
میں نے کہا ” نو. نوٹ می ” .
بولی ” اور دوسرا لوگ “
ٹو ہل ود دم ” میں نے بے نیا زی سے کہا .
فلیٹ میں وہ اتنی اچھی ساتھی ثابت ہوئی اتنی اچھی اتنی قریب آ گئی کہ روئیں میں بس گئی تفریح سنجیدگی میں بدل گئی بات دور نکل گئی لیکن اندر ہی اندر باہر وہی کلف لگا رہا بے نیازی کا روپ دھارے رکھا
پھر اور لوگ اسے ملنے فلیٹ میں آنے لگے
ایک روز بڑی معصومیت سے بولی ” الطی ، یو ما ینڈ اٹ “۔
میں نے کہا ” او نو ناٹ می ” .
بولی ” ڈیٹس گڈ . الطی جسم تو اوپر کی چیز ہے سرسر ی تعلق اصل تعلق تو دل کا ہوتا ہے “
میں نے کہا ” بلکل “۔
بولی ” یو ایگری ؟ “میں نے کہا ٹو ٹو “
جب اس نے پہلا سرسری تعلق پیدا کیا تو میرے دل میں اک کرنٹ لگا میں نے دل کو سمجھایا بجھایا سالے تفریح کو روگ بنا رہا ہے ؟ ہشت ” .
دوسرا کرنٹ لگا تو میں ہشت کہنا بھی بھول گیا .پھر پہ بہ پہ لگے تو ساری آزاد خیالی بلبلے بن گئی اندر کا چور بھوت بن کر نکلا ایٹی کیٹ دھری کی دھری ره گئی الطو کے سامنے تن کے کھڑا ھو گیا ” الطو سٹاپ دس نا نسنس ” .
وہ حیران ” ریئلی الطو یو ڈونٹ ماینڈ اٹ دیٹ مچ “۔
یس آئی ڈو “
آئ ام سوری الطو بٹ وہ بٹ کا مفھوم بتاۓ بغیر رک گئی
شام کو بٹ کا مفھوم واضح ھو گیا وہ فلیٹ چھوڑ کر جا چکی تھی دو چار دن تو میں اس چوری چوری دل ہی دل میں انتظار کرتا رہا پھر باہر والی میں ” جلال میں آ گئی میں خود ڈانٹنے لگا ” احمق یه محبت تھوڑا ہی تھی .یه تو اک ارینجمنٹ تھا تفریح تھی چلی گئی ہے تو چلی جاۓ اور آ جاۓ گی تفریح تو رنگا رنگ ھوتی ہے یک رنگی تو بوریت ھوتی ہے یہ تو سمجھ لو انٹر ول ہے تماشا پھر سے شروع ھو گا ” .
لیکن وہ انٹرول جھکڑ بن گیا لٹو گھومنے لگا شرابی لڑ کھڑا نے لگا .موٹر سا ئیکل نے جلتی پرتیل ڈالا سمت چھوٹ گئی پھر وہی با د یہ پیمائی . سارا جھگڑا دو ہونے کی وجہ سے تھا ایک ہوتا تو دکھ ہوتا جھکڑ نہ ہوتا دکھ تھا بہت گہرا مگر میں اسے اپناتا نہ تھا اس لیے جھکڑ چل رہا تھا
اس جھکڑ میں کئی ایک آوازیں سنا ئی دیتی تھیں کسی نے کہا وہ کسی اور ساتھی کے ساتھ دوسرے فلیٹ میں چلی گئی ہے ایک روز گھومتا پھرتا اس فلیٹ تک جا پہنچا ایک لمبی سی سیڑھی اوپر تک چلی گئی تھی اوپر دروازہ تھا
پھر پتا نہیں کیا ہوا دن میں گھومتے پھرتے ہر دو تین گھنٹے کے بعد پھر سے وہی سیڑھی آ جاتی کبھی دائیں کبھی با ئیں ساری رات سیڑ ھیاں چڑھتا رہتا سارا دن سیڑھیوں کو دیکھ کر جی میں آتا کہ چڑھ جاؤں .چڑھ جاؤں تو سرسری تعلق صابون کے بلبلوں کی طرح اڑ جائیں گے لیکن باہر کی ” میں ” ضد کیے بیٹھی رہی
چڑھ جاتا تو سیڑھی کے چکر میں نہ پڑتا نا چڑھا تو ایسا چکر چلا کے میرے ارد گرد چاروں طرف سیڑ ھیا ں ہی سیڑ ھیا ں کھڑی ھو گئیں
ایک روز بازار میں سیڑھی سرکار کی بات سن کر کان کھڑے ھو گے میں سمجھا لوگ باگ میری بات کر رہے ہیں .حیران کہ انہیں کیسے پتہ چلا کہ نیچے سیڑھی ہی سیڑھی اوپر سرکار ہی سرکار بعد میں پتہ چلا کہ کوئی اور سیڑھی سرکار ہیں جو عاشقوں کےپیر ہیں.اگر چہ میں نے یہ نہیں مانا تھا کہ یہ محبت کی گھمن گھیری ہےپھر بھی دل میں چور تھا اس لیے انجانے میں سیڑھی سرکار کی طرف رخ کرتا رہا اور بلاخر وہاں پہنچ گیا
سیڑھی سرکار دراصل شہر کا اک مضا ف ہے چھوٹا سا اک گاؤں جس میں سیڑھی سرکار کا مزار ہے مزار بہت فراخ ہے باہر تین ملحقہ چبوترے ہیں جن پرلوگوں کی بھیڑ رہتی ہے عورتیں زیادہ ساتھ بچے مرد کم کم پہلے چبوترے پر جو مزار سے ملحقہ ہے تین ٹنڈ منڈ درخت ہیں ان کی ٹہنیاں پتوں کی جگہ رنگ برنگی دھجیوں سے بھری ہوئی ہیں ایسے لگتا ہے جیسے پتوں کی جگہ دھجیاں اگی ھوں یہ دھجیاں لوگوں کّی آرزو ہیں تمنائیں ہیں .محبتیں ہیں محرومیاں ہیں سب عشق کے بکھیڑ ے محبوب کی بے رخی بے وفائی حا لات کی نا ساز گاری ملاپ میں رکاوٹیں
سیڑھی سرکار عشق کا پیر ہے
درگا ه پرجاؤ مزار پرسلام کرو فاتحہ پڑھو دعا مانگو سرکار میری محبت کا میاب کر دے تیرے دربار پردیگ دوں گا سیڑھی چڑھاؤں گا پھر باہر آ کر کپڑے کی رنگ دار کترن پراپنا نام لکھو اسے درخت پرباندھو .پھر دعا پڑھو منت مانو
چبوترے پرچار دیواری کے ساتھ سیکڑوں سیڑھیاں لگی کھڑی ہیں میں حیرت سے انکی طرف دیکھتا رہا یہ کیسا چڑھاوا ہے پھر میرےسامنے فلیٹ کی سیڑھیاں آ کھڑی ہوئیں نیچے سیڑ ھیاں ہی سیڑ ھیاں اوپر سرکار پتا نہیں کیوں میں سیڑ ھی سرکار .سے مماثلت سی محسوس کر رہا تھا۔ ویسے میں دو دِلا تھا۔ ایک دل چاہتا تھا کہ مزار پر جاوُں دعا مانگوُں، کترں باندھوں، پھر فالیٹ کی سیڑھی چڑھ جاوُں۔ دوسرا دل ان ساری باتوں پر تمسخر سے ہنس رہا تھا۔
اس روز میرے دل میں ایک لگن لگ گئ کہ سڑھی سرکار کے بارے میں جانوں۔وہ کون تھے ؟ کہاں رہتے تھے ؟ کیا کرتے تھے؟ کیسے سڑھی سرکار بنے؟ سڑھی کی ان کی زندگی میں کیا اہمیت تھی ؟
سارا دن میں شہر میں آوارہ گردی کرتا گلیوں میں گھومتا تاکہ سڑھیاں نظر آئیں۔مجھے سیڑھی آبسیشن ہو گیا تھا۔ رات کو سیڑھی سرکار پہنچتا اور لوگوں سے پوچھتا پھرتا۔
وہاں سب لوگ سرکار کی کرامت سے بھرے پڑے تھے۔کسی کو علم نہ تھا کہ سرکار کی زندگی کے کوائف تھے۔انھیں سڑھی سرکار کیوں کہا جاتا ہے۔
پوچھتے پوچھتے ایک مست سے جا پوچھا ۔وہ بولا
” جا، نوری کے پاس جا “
اور پھر گاوُں کے دوسرے کونے کے طرف اشارہ کیا ۔وہ مست سارا دن چار دیواریوں سے لگی ہوئی سیڑھیوں سے جان بوجھ کر گرا کرتا تھا۔پہلے چڑہ جاتا پھر لُڑھکتا۔
نُور بی بی نے میری طرف گھور کر دیکھا ، دیکھتی رہی۔پر بولی تو سرکار کی کہانی لکھنا چاہتا ہے ؟ کیوں ؟
میں نے جھوٹ بول دیا ۔ میں نے کہا ” سرکار روز خواب میں آتے ھیں کہتے ہیں اُٹھ الطاف ، اٹھ لکھ ۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے روز یہی ہوتا ہے۔وہ میرے سرہانے کھڑے کر اپنا کھونڈ کھڑکاتے ہیں اُٹھ لکھ۔
وہ بہت دیر خاموش بیٹھی رہی۔ پھر بولی ” اچھا، جو سرکار یہی چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ ویسے انکی کہانی جوگی نہیں جو سُنائی جائے۔اور کہانی بھی کیا نیچے وہ تھے، اور اُپر تارا بائی تھی۔ اور درمیان میں چوبارے کی اونچی لمبی سڑھی تھی۔پہلے دو سال وہ تارا بائی کے لیے چڑھتے رہے۔ پھر دو سال وہ تارا بائی کے لیے گرتے رہے ۔ پھر وہ اُوپر آ بیٹھے۔ تارا نیچے جا بیٹھی۔ پھر نہ تارابائی رہی اور نہ وہ رہے ۔ اور نہ میں رہا نہ تو رہا ۔ بس سڑھیاں ہی سڑھیاں رہ گئیں
بس اتنی سی تو کہانی ہے یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی
نور بی بی کی بات سن کر میں بالکل ہی کنفیو زڈ ھو گیا کچھ سمجھ میں نہ آیا میں نے کہا ” میں تو کچھ بھی نہیں سمجھا “
وہ مسکرائی .بولی ” لڑکے تو جا ” پہلی سیڑھی تو چڑھ سیڑھی چڑھنا سیکھ پھر میرے پاس آنا ساری بات سمجھ میں آ جا ۓ گی ” .
میں نے کہا ” بی بی ” میں تو دو ھوں ایک نہیں دو دلا سیڑھی کیسے چڑھے “؟
بولی ” جب چڑھتے ہیں تو سبھی دو دلے ھوتے ہیں پھر گر گر کر ایک ھو جاتے ہیں
جب سرکار تارا بائی سیڑ ھیاں چڑ ھتے تھے وہ بھی دو تھے تارا بائی پراتنے ریجھے کہ ساری جاگیر بیچ کر اسے کھلا دی۔تارا بائی بھی تو کٹرے کی رانی تھی بڑے بڑے سیٹھ ہاتھ با ندھےکھڑے رہتے تھے اس میں بلا کی بے نیازی تھی سرکار بھی اس بے نیازی کی بھینٹ چڑھ گۓ سب کچھ لٹا کر تارا کے دربار جا بیٹھے ہر چار ایک دن کے بعد وہ تارا کو دیکھنے کے لیے سیڑھیاں ں چڑھ جاتے چوبارے کی دھلیز پر پہنچتے تو بائی کے حواری انھیں دھکا دے کر گرا دیتے .لڑ کھڑا تے ہوے سیڑھیوں سے گرتے .ہڈیاں ٹوٹتیں زخم آتے
نیل پڑجاتے کئی زخموں کو سہلاتے رہتے بدن میں پھر سے جان آتی تو پھر سیڑ ھیاں چڑھنے لگتے پھر دھکے کھا کر لڑهکتے ہوۓ نیچے جا گرتے
کٹڑے کے دکاندار بھاگے بھاگے آتے سرکار کو اٹھاتے روئی سے زخم دھوتے دوا ئیاں لگاتے
پٹیاں باندھتے .
ایک روز جب سرکار سیڑ ھیاں چڑھ کر چوبارے کی دہلیز پرپہنچے تو اتفاق سے تارا خود دروازے کے پاس کھڑی تھی. تارا نے بڑے ترس سے سرکار کیطرف دیکھا سرکار ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے رہے
تارا بولی ” بابا کیوں خوامخواہ دھکے کھاتے ھو ہڈیاں تڑ واتے ھو مجھے دیکھنا ہے تو دیکھ لو یہاں بیٹھ جاؤ جی بھر کر دیکھ لو “۔
سرکار نے کہا ” تو کون ہے ” یہ کہہ کر نور بی بی چپ ھو گئی .
مجھے یوں لگا جیسے ساری کائنات چپ ہو گئی ہو صدیاں بیت گئیں پھر اس نے سر اٹھا یا بولی ” بس اس اک جملے نے تارا کو ریزہ ریزہ کر دیا “
ہوش آیا تارا انکی انگلی پکڑ کر اس گا ؤں لے آئ تارا کے سارے جسم پرنیل پڑے ھوۓ تھے ہڈیاں سوجی ہوئی تھیں جگہ جگہ زخم تھے سرکار دوا لگایا کرتے زخم دھوتے پٹیاں باندھتے .لیکن جب بھی تارا ان سے بات کرتی تو وہ حیرت سے اسکی طرف دیکھتے پوچھتے ” تو کون ہے “؟