شہری حقوق اور سوشل میڈیا۔از اسما ابرار
رات کے اس پہر ابو کا نمبر میرے موبائیل پر بلنک کر رہا تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھی خدشات دماغ میں گھومےکہ ابو توسفر پر گئے ہوئے تھے اس سے پہلے کہ کچھ اور سوچ آتی کال اٹھائی ابوروہانسے بیٹا کنڈکٹنگ گارڈ بدتمیزی کر رہا ہے۔ابو ریل میں واپس آرہے تھے ساری بات سن سمجھ کر آئی جی ریلوے کا کمپلینٹ نمبر نکال کر کال ملایی آپریٹر نے بات سن کر کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ اگلے سٹیشن پر ریلوے پولیس کے آفس کمپلینٹ کر لیں ۔ اس کی اس بات پر میں نے اسے کہا کہ آپ نے یہ نمبر کیوں لگایا جب کمپلینٹ نہیں سننی۔ ایک تو پیسنجر کو پرابلم اوپر سے وہ آفس ڈھونڈھ کر وہاںں کے لوگوں کو ڈھونڈ کر پھر کمپلینٹ کریں ۔ میں نے یہ کہ کر کال ڈسکنیکٹ کر دی کہ کال ریکارڈ ہو گئی اب آپ جانیں آپ کا آئی جی جانیں اور سوشل میڈیا جانے۔ بس پھر دس منٹ کے اندر چار کالز میں نےرسیو کیں سیٹ اور ٹکٹ کی انفارمیشن لی گئی پھر مذکور کنڈکٹنگ گارڈ کو پولیس کی ٹیم کے ساتھ ابو کے پاس بھیجا گیا معاملے کو سمجھ کر کنڈکٹنگ گارڈ کی سرزنش کی گئی اور معافی تلافی کے بعد معاملہ رفع دفع ہوا۔ یہ سب رات کے بارہ بجے چلتی ٹرین میں کمپلین کے ایک گھنٹے کے اندر ہوا۔ اس واقعے کے بعد کنڈکٹنگ گارڈ کم ازکم کسی کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے پہلے دس بار سوچے گا۔
مقصد یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کو اچھے سے سمجھے اور ان کو کہاں اور کیسے درست طریقے سے منوانا ہے اس کی آگہی ہو سوشل میڈیا کے دور میں اپنا ذہنی دباؤ کم یا ختم کرناکوئی مشکل کام نہیںں