اور پھر کن کے بعد اس نے کہا… جا میرے آدمی محبت کر!!! افسانہ:ملک سلیم اعوان
اور پھر ”کُن” کے بعد اس نے کہا،
جا! مِرے آدمی! محبت کر!!!!!!!
راز ازل
ہر طرف بادلوں کی گھن گھرج تھی ، سیاہ اندھیری تاریکی اس کے تاریک بخت کی طرح پھن پھیلائے اس کو نگلنے کو اس کے ذہن کی دہلیز پر دھری تھی۔ وہ اس ذلت کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔ اک پل کو ہی دماغ ماؤف ہوا تھا۔ دل تھا کہ تقدیر کی ستم ظریفیوں سے ہچکولے کھاتی ناؤ کی طرح تن تنہا آدم زادوں کی اس پر اٹھنے والی ترحم بھری انگشت سے کوہ طور پر ممتا کی دعاؤں کے پیالوں سے محروم ہو جانے والے سہم سہم کر خوف سے لرزاں نور مجسم سے محو کلام اپنے ہی قدموں پر افتاں و خیزاں موسیٰ (ٰ علیہ السلام) کی طرح ، ڈوب ڈوب کر ابھرتا محسوس ہوا کیونکہ اس میں اور موسیٰ(علیہ السلام) میں اشتراک بس دعاؤں کا محور و مرکز بخارات بن کر اڑ جانے والا وجود اور آدم زاد ہونا تھا۔۔۔ مگرررر وہ پیغمبر خدا تھے اور اس نور مجسم نے “کن ” سے کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد اپنا سب سے قیمتی تحفہ (محبت ) اپنی تجلی سے ودیعت کر کے اس آدم زاد کو نواز دیا تھا اور وہ ظلم و جبر کے فرعونی سمندر کو محبت ۔۔۔محبت۔۔۔۔پکارتے پار کر گئے۔ صدیاں بیتی نور الہی کا پیغام محبت کر ۔۔۔ محبت کر ۔۔۔ مخلوق خدا سے ۔۔۔ رب ذوالجلال سے۔۔۔ بشر سے۔۔۔ اس بشر سے جو باعث فتنہ ہے، باعث جنگ و جدل ہے ، باعث تشہیر ابلیس ہے۔ مگر پھر بھی، پھر بھی اس سے محبت کرنی ہے کیونکہ یہ وہ زم زم ہے، وہ “کن” کا وظیفہ ہے جس کیلئے کائنات خلق ہوئی۔۔۔
ایک روشنی کا جھماکہ تھا جو اس کی بصارت و سماعت کے سارے پردے چاک کرتا چلا گیا وہ بھول گیا کہ وہ کس ذلت کے طوفان سے گزر کر آیا ہے، کن طعنوں کی آگ کے شعلوں پر پباں بھار چلتا اپنے “پاک ” ہونے کے امتحان کو پاس کرنے کی تگ و دو میں بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی تک فیل ہوتا آیا ہے۔ تحت الشعور سے شعور تک وہ لفظ آتے آتے اس کا وجود کانٹوں سے دھجیوں میں لیرولیر پھٹتے ریشم کی طرح کن کن اذیتوں سے تار تار ہوا ہے ۔۔۔ اس نے خون سے لتھڑے ہونٹوں کو صاف کیا، سر میں بے رحم آدم زادوں کے متعفن مغلذات ۔۔۔۔
تم ایک ہیجڑے ہو۔۔۔۔خواجہ سرا ہو ۔۔۔۔
تم ہم جیسے نہیں۔۔۔۔
تمہارا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ۔۔۔۔
تمہیں جینے کا حق نہیں۔۔۔
تم دھبہ ہو ۔۔۔۔۔
سے اٹھنے والی ٹھیسوں کو زیر لب مسکرا کر جھٹکا اور بس اس کے روم روم میں ایک ہی ورد تھا جسے اس نے یاد رکھنا تھا ۔۔۔۔۔
چند پل کی مدہوشی اسے “طور ” تک لے گئی تھی وہ اب عالم وجد میں تھا سر سے لے کر پاؤں تک اک سرشاری تھی۔۔۔ وہ روتا جا رہا تھا ۔۔۔ خوشی سے، درد سے۔۔۔ تشکر سے۔۔۔ کہ وہ بھی آدم زاد ہے۔۔۔ اس مالک کن فیکون کے پیغام ازل کو ۔۔۔ پیغام محبت کو۔۔۔۔ کائنات میں نچھاور کرنا ہے
نمی دانم آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازیں زوقِ کہ پیشِ یار می رقصم!
اس کی بصارت و سماعت پر ہونے والے جھماکے نے اسے اس گناہ عظیم سے بچا لیا تھا جس کو اس کی زیست پر شب خون مارنے والی تقدیر نے، آدم زادوں کی اٹھنے والی بدبودار ، متعفن زدہ انگشت نے کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔
اسے اب مرنا نہیں تھا جینا تھا ۔۔۔۔
وہ جیسا ہے جس طرح ہے اس پر شکر کرنا تھا۔۔۔۔
مدہوش وجود کے ساتھ ایک سجدہ شکر ، سجدہ محبت خاک پر جھکی ناک اور تر پیشانی کے ملاپ سے ادا کرنے پر زمین بھی
اس کے ماتھے پر ٹپکتا عشق کا نور رب ذوالجلال سے بھانپ چکی تھی اور جھوم رہی تھی۔۔۔
دور افق پر نیلگوں فلک پر عقیدت کے تارے ٹمٹما رہے تھے۔۔۔۔