ممتاز مفتی خود بین یا خدا بین لکھاری۔
ممتاز مفتی اپنے صاحبزادے عکسی مفتی سے کہا کرتے تھے کہ تمہارا کوئی چاچا، ماما، تایا اور رشتہ دار نہیںہے۔ تمہارا صرف میں ہوں ،تمہاراا با۔ میں تمہارا باپ ہوں اور ماں بھی،میں تمہارا دوست ہوںاور میرے دوست تمہارے دوست ہیں۔ ممتاز مفتی دنیائے ادب میں ایک ادیب اور لکھاری کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں مگر اپنے مدعاﺅں کے لئے وہ ایک دنیا اور طرزِ زندگی ہیں۔ ممتاز مفتی کے پڑھنے والے مفتی جی کو پڑھتے ہی نہیں بیتتے ہیں اور جیتے ہیں۔اگر ابدال بیلا کے احساسات، جذبات اور خیالات مستعار لئے جائیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے ممتاز مفتی کے چاہنے والے انہیں اوڑھتے ہیں۔
ممتاز مفتی معاشرتی روایات سے باغی تھے۔ اپنے غصے اور بغاوت کو انہوں نے تعمیری طور پر استعمال کیا اور اپنے جذبات کو الفاظ کا لباس پہنا کر معاشرے کے سامنے آئینے کے طور پر پیش کیا۔ ممتاز مفتی نے افسانے قلمی نام ممتاز حسین کے نام سے لکھنا شروع کئے مگر ان کے دوستواں نے بھانپ لیا کہ ممتاز مفتی ہی ممتاز حسین ہیں۔
ممتاز مفتی کی سوانح حیات دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول ©’علی پو کا ایلی‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کو اردو ادب کا گورو گرنتھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کا تعارفی صفحہ پڑھتے ہی پڑھنے والا یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے۔ روایتی طور پر کتابوں کے سرورق پر کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملائی جاتی ہیں مگر ’علی پور کا ایلی‘ کا پہلا ورق یہ مشورہ دیتا ہے کہ ’آپ یہ کتاب نہ پڑھیں۔یہ کتاب پڑھ کر آپ تباہ و برباد ہو جائیں گے، کسی جوگے نہ رہیں گے‘۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ سوانح حیات میں ایسا سحرکیسے ہو سکتا ہے جو انسان کو برباد کر دے۔
’علی پور کا ایلی‘ کے بارے میں ممتاز مفتی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے گندے کپڑے چوپال میں بیٹھ کر دھوئے ہیں۔ ممتاز مفتی نے اپنی ذات کے ہر رنگ کو قارئین کے سامنے پیش کر دیا۔اپنی عزت ، غیرت اور انا پر ملامت کی ضرب لگائی اور ایسی بے باکی سے سچ لکھا کہ پڑھنے والے عش عش کر اٹھے۔اس کتاب کا طرہ امتیاز ہے کہ پڑھنے والے کی زبان سے سچ جاری ہو جاتا ہے، وہ سچ بولتا ہے اور اس کے آس پاس بھگ دڑ مچ جاتی ہے۔ لوگ حیران ہو جاتے ہیں مگر سچ بولنے ولا بولتاجاتا ہے ، وہ سچ کی چھتری تلے کھڑا لوگوں کی حیرانی، پریشانی اور پشیمانی کا تماشہ اطمینان سے دیکھتا ہے۔ ناخداﺅں کا خوف ماضی کاقصہ بن جاتا ہے اورمستقبل اپنا رخ نئی زندگی کی نئی قدروں کی جانب موڑ لیتا ہے۔
سوانح حیات کا دوسرا حصہ ©’الکھ نگری‘ ہے۔ علی پور کا ایلی تلاشِ ذات ہے جبکہ الکھ نگری تلاشِ خدا ہے۔ اس تصنیف میں ممتاز مفتی کا مشاہدہ قدرت اللہ شہاب ہیں جو کہ ایک سول آفیسر تھے۔کہا جاتا ہے کہ قدرت اللہ شہاب ایک بزرگ تھے اور اپنے دور کے قطب تھے۔ ممتاز مفتی قدرت اللہ سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے مگر راہِ حق میں ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کو منزل نہیں بلکہ سنگ ِ میل قرار دیا۔
ممتاز مفتی کی والدہ کی خواہش تھی کہ مفتی جی کو اپنے روحانی مرشد حاجی صاحب سے بیعت کروا لیں مگر ممتاز مفتی کا یہ یقین تھا کہ نیکی تو دراصل اس عمل کو کہتے ہیں جو اپنے زورِ بازوپر کی جائے۔ اگر کوئی بزرگ اپنے کشف سے کسی کو نیکی کی راہ پر مائل کر لے تو یہ عمل کرامت تو ہو سکتا ہے نیکی نہیں ہو سکتی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز مفتی نے حاجی صاحب سے بھی کیا اور اپنی والدہ کی خواہش بھی ان کے گوش گزار کی۔ حاجی صاحب ممتاز مفتی کے خیالات سن کر الحمداللہ کہہ اٹھے اور ان کو ایک روشن مستقبل کی خوشخبری سنائی۔
ممتاز مفتی نے سفر حجاز کی داستان کتاب ©’لبیک‘ کی صورت میں اپنے مدعاﺅں کی نذرکی۔ اس سفر میں قدرت اللہ شہاب ، ممتاز مفتی کے ساتھی تھے۔ یہ کتاب اتنی جاذب ہے کہ ہر ایک سطر پڑھنے والے کو حیرت کی دنیا کی جھلک دکھلاتی ہے۔عکسی مفتی اپنی کتاب ’ایک دن کی بات‘ میں لکھتے ہیں کہ ’لبیک‘ جیسی کتاب عام آدمی تحریر نہیں کر سکتا۔ ایک مجذوب ہی جسارت کر سکتا ہے کہ جذب و مستی کی کیفیت میں خانہ کعبہ کے لئے ’کالے کوٹھے‘ جیسے الفاظ استعمال کرے۔
ممتاز مفتی کی کتاب کے بارے میں فارسی کا یہ جملہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا:
با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار (خداکے لئے جنون اور محمد ﷺکے لئے عقل و خرد)۔
ممتاز مفتی نے بشمول اپنی آخری تصنیف ’تلاش‘ کے تمام تصنیفات میں حضرت محمد ﷺ کو اپنی پسندیدہ شخصیت گردانا ہے اور آپﷺ کے عظیم ترین انسان ہونے کی گواہی دی ۔ ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ محمد ﷺ ایک عظیم انسان اور رحمت للعامین ہیںمگر پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی نمونہ کے طور پر انتہائی غربت میں گزاری۔ ممتاز مفتی کہتے ہیں غربت ایک راز ہے اور ان کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کے کتنا قریب ہیں۔ غربت کے باوجود وہ اتفاق و اتحاد کی دولت سے مالا مال ہیں۔ جاپان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ضرور ہے مگر وہاں افزائشِ نسل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے خطہ زمین کے ہر گھر میں بچوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔
ممتاز مفتی انسانی نفسیات سے بھی بخوبی واقف تھے وہ جانتے تھے کہ نصیحت نوجوانوں میں بغاوت پیدا کرتی ہے۔ ممتاز مفتی نے نوجوانوں کو نصیحت کرنے سے اجتناب کیا اور اپنی کہانیوں اور افسانوںکے زریعے نوجوانوں کو حقیقت سے روشناس کیا۔ممتاز مفتی کا لیڈراورگرو کے بارے میں ایک الگ زاویہ خیال اور نظریہ تھا۔ ممتاز مفتی کو یقین تھا کہ ہر دور کا کامیاب لیڈر اس وقت کے لوگوں سے ظاہری طور پر مشابہت رکھتا ہے اور آج کے دور میں کامیاب گرو وہی ہو گا جو لوگوں کے آگے نہیں بلکہ ان کے پیچھے چل کر ان کی رہنمائی کرے۔
ممتاز مفتی نے اپنی تمام عمر سوچ بچار اور سادگی میں گزاری۔ آخری ایام میں بھی ممتاز مفتی گاﺅ تکیا لگائے بیٹھے رہتے۔ ممتاز مفتی اپنے بیٹے عکسی سے کہا کرتے ، میں اسٹیشن پر بیٹھا ہوں میرا جانے کا وقت ہو گیا ہے میری گاڑی کیوں نہیں آتی۔ ایک روز ممتاز مفتی نے اپنے بیٹے سے یہ عہد لیا کہ جس دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوں گے اس دن کو خوشی کے طور پر منایا جائے گا۔ وصال کے لمحات اسی شخص کے لئے اطمینان بخش ہو سکتے ہیں جو جانتا ہو کہ زندگی کے امتحان میں وہ سرخرو ہو چکا ہے۔
ممتاز مفتی جب دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں کا ایک ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر رنج و غم میں کے عالم ان کے گھر پہنچا۔ان لوگوں میں ممتاز مفتی کے کئی نقاد بھی تھے اورکئی ایک ایسے باریش بزرگ تھے جنہیں حاضرین میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔ مفتی صاحب کے ناقدین اشک بار تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’آج اللہ کی تلوار ٹوٹ گئی‘۔
ممتاز مفتی کی ادب کے لئے خدمات کو سرہاتے ہوئے حکومت پاکستان نے 1986میں ستارہ امتیازبرائے حسنِ کارگردگی سے نوازا۔ 1989میں پریم چند ایوارڈ بھی ممتاز مفتی کے نام کیا گیا اور پاکستان پوسٹ نے 12جون، 2013کو ممتاز مفتی کے نام سے ایک ٹکٹ جاری کیا ۔
ممتاز مفتی کی وفات کے بعد عکسی مفتی کو ایک خاتون نے خط لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ’ ممتاز مفتی ساری زندگی خدا کو تلاش کرتے رہے۔ ان کو خدا ملا ےا نہیں یہ تو میں نہیں جانتی مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اگر خدا میرے پاس ہوتا میں ضرور ان کو دے دیتی‘۔