ممتاز مفتی کا فکری ارتقا
پروفیسراحمد عقیل روبی ، اپنی کتاب ”علی پور کا مفتی “ میں لکھتے ہیں کہ ممتاز مفتی کی محفل میں ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ممتاز مفتی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،” یہ لڑکی مجھ پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہے مگر یونیورسٹی والے اسے اجازت نہیں دیتے، ان کا کہنا ہے پہلے مفتی کو مر جانے دو اس کے بعد اس پر پی ایچ ڈی کی اجازت ملے گی“۔ ممتاز مفتی نے مسکرا کر جواب دیا،” یونیورسٹی والوں سے کہہ دو مفتی کو مارنے کی کوشش کر رہی ہوں جلد ہی رخصت ہو جائے گا“۔ وہ خاتون ڈاکٹر نجیبہ عارف تھیں، جنہیں بالآخر ممتاز مفتی پر پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت مل گئی اور انھوں نے ۳۰۰۲ میں پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ اس مقالے کو الفیصل پبلشرز نے ”ممتاز مفتی کا فکری ارتقا“ کے عنوان سے شائع کیا۔
ڈاکٹر نجیبہ کہتی ہیں
مجھے ممتاز مفتی کی تحریروں سے وابستگی بھی تھی اور اس سے متعلقہ بنیادی مآخذ تک رسائی بھی حاصلؒ تھی، یونی ورسٹی نے یہی دیکھ کر میرا موضوع منظور کر لیا۔جہاں تک میری تحقیق کے حاصل کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ ممتاز مفتی کی تحریروں میںفکری اعتبار سے واضح ارتقا اور تبدیلی نظر آتی ہے۔پہلے دور کی تحریروں کو دیکھا جائے تو ان میں جنس اور انسانی نفسیات کا مطالعہ غالب نظر آتا ہے۔وہ انسان کے باطنی اسرار اور اس کی شخصیت کی بھول بھلیاں کی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی ابتدائی کہانیاں فحش ہیں، مگر ایسی فحاشی تو خود زندگی کے اندر موجود ہے۔ انھوں نے ان معاشرتی ٹیبوز کو توڑنا چاہا ہے جو انسانی ذات کی تفہیم میں حائل ہوتے ہیں۔ دوسرے دور میں مفتی صاحب کی توجہ کا مرکز ہند اسلامی تہذیب ہے جس کا وہ احیا چاہتے ہیں۔جدید طرز زندگی اور معاشرے پر اس کے اثرات کا موضوع ہمیں ان کے کئی افسانوں میں نظر آتا ہے ۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ممتاز مفتی عورتوں کی آزادی کے حامی تھے مگر ان کے ہاں عورت کا تصور نہایت روایتی ہے۔اس معاملے میں وہ اپنے بچپن کے تجربات و مشاہدات کے اثر سے رہا نہیںہوئے اور آخر تک عورتوں کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر کے حامی رہے جو قدرے محدود بھی تھا۔
تاہم تیسرے دور میں تصوف ان کا نمایاں ترین موضوع بن گیا۔مثلاً ”سمے کا بندھن “ اور ”ان پورنی“، ایسی کہانیاں ہیں جن میں بدن سے روح تک کا سفر دکھایا گیا ہے۔
I want to read this thesis.If possible send copy on mg following Email address.Thanks