کتاب : تلاش
باب 9 : کریش سولائزیشن
ٹرانسکرپشن : فرحین فرحان
حجاب، بے حجابی
صاحبو ! بے حجابی اخلاقی یا مذہبی مسئلہ نہیں۔ یہ تو بیالوجی کا مسئلہ ہے۔
میرے دور میں لڑکی ہمیشہ چوبارے کی کھڑکی میں نظر آیا کرتی تھی۔ وہ بھی کھلے منہ نہیں چق کے پیچھے۔ دو حنائی انگلیاں چق کے کونے پر نظر آتیں اور چق کی تیلیوں کے پیچھے ایک چٹا سفید دھبا سا چہرہ، ایک مبہم سی مسکراہٹ، دو ڈولتی کالی کشتیاں۔ چق ہلتی تو دل ہلتے تھے۔ تحریک پیدا ہوتی تھی۔
برقعے میں لپٹی عورت بازار میں نظر آتی تو ہوا کے جھونکے سے نقاب کا ایک پلو اڑتا۔ نیچے گلابی رخسار نظر آتا تو تحریک پیدا ہوتی تھی۔
اگر تحریک پیدا نہ ہو تو ملاپ نہیں ہو سکتا۔ انگریزی میں اسے Preparation سٹیج کہتے ہیں ۔ پرپریشن کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں بڑے بوڑھے مل بیٹھے۔ انہوں نے سوچا ، مرد پر جو یہ بڑی ذمہ آ پڑی ہے، اسے نبھانا پڑے گا۔ مرد میں تحریک پیدا کرنے کا آسان اور یقینی طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کو علیحدہ علیحدہ کر دیں۔ یہ فیصلہ مشرق اور مغرب دونوں کے بڑوں نے کیا تھا۔ مشرق والوں نے نقاب عائد کردیا، مغرب والوں نے فیصلے پر اکتفا کیا۔
صاحبو ! 1921 میں جب میں فرسٹ ایئر میں داخلے کے لیے لاہور آیا تو دیکھا کہ انار کلی میں کوئی عورت نظر نہیں آتی تھی۔ عورت کو دیکھنے کے لیے ڈبی بازار جانا پڑتا تھا۔ سالم عورت وہاں بھی نظر نہیں آتی تھی۔ کبھی رخسار، کبھی توجہ طلب کالی آنکھیں، ان دنوں عشق اور محبتیں کھڑکیوں، جھروکوں اور چھتوں کی محتاج تھیں۔
اشفاق احمد اٹلی میں پروفیسری اور براڈکاسٹنگ سے فارغ ہو کر لاہور آیا۔ یہ پاکستان کے قیام سے پہلے کی بات ہے۔ اس نے مجھے بتایا:
” میں چھٹی کے دن سیر سپاٹے کے لیے شہر سے باہر نکل جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ شہر سے دس میل دور ایک گاؤں میں رکا تو گاؤں کی موٹی موٹی میموں نے مجھے روک لیا۔ پوچھنے لگیں، کیا تو شہر میں رہتا ہے؟ میں نے کہا، ” بلکل۔” کہنے لگیں، ہم نے سنا ہے کہ شہر کی لڑکیوں نے پاجامے اوپر چڑھالیے ہیں اور ننگی ٹانگوں سے گھومتی پھرتی ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ میں نے کہا، ہاں یہ سچ ہے۔ وہ حیرت سے چلائیں ” انھیں شرم نہیں آتی۔ اتنی بے حیائی۔ توبہ توبہ توبہ۔”