کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : اقصیٰ حنیف
ارے یہ میں کہاں آ نکلا ہوں؟
صاحبو ! غربت کے چند ایک اوصاف تو سبھی جانتے ہیں، اگرچہ مانتا کوئی نہیں۔ میں بھی نہیں مانتا تھا۔ میں اس سٹیٹس زدہ شہر اسلام آباد میں 1972ء سے رہتا ہوں۔ یہاں سڑکوں پر بیرے، باورچی، ڈرائیور اور چوکیدار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ صاحب اور بیگمات بنگلوں کے اندر بند ہیں۔ کاروں میں آتے جاتے جھلکی دکھاتے ہیں۔ ہوٹلوں میں، کلبوں میں، فنکشنوں میں جھلکیاں دکھاتے ہیں۔ باہر سے دیکھو ےو یہ شہر ویرانہ ہے۔ اندر تو محفلیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک دن پتا نہیں کیا ہوا، غالباً میں راستہ بھول گیا۔ ایک گلی میں داخل ہوا تو منظر دیکھ کر حیرت سے رک گیا۔ ارے یہ میں کہاں آ نکلا ہوں۔ لگتا تھا جیسے اسلام آباد نہ ہو کوئی اور شہر ہو۔ گلی کے بیچ میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ لوگ بیٹھے حقہ پی رہے تھے، ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ قہقہے لگ رہے تھے۔ چارپائیوں کے ارد گرد ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے۔ غل مچا رہے تھے۔ بیبیاں پیڑیوں پر بیٹھی دال چن رہی تھیں۔ جوان لڑکیاں کوارٹروں کی کھڑکیوں سے جھانک رہی تھیں، ایسا لگتا تھا جیسے وہ گلی نہیں بلکہ ایک گھرانہ ہو۔ پتا چلا کہ وہ کوارٹر چپڑاسیوں کی بستی کے ہیں۔ وہ رونق، وہ خوشی، وہ قہقہے، وہ رشتے، ہمدردیاں، اپنائیت غربت کی تھی۔ اللہ خود گلی میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور اپنی مخلوق کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
صاحبو ! ایسی چند ایک گلیاں آج بھی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ اگر آپ اللہ کو دیکھنا چاہیں تو مسجد میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہاں اللہ نہیں ملتا، وہاں اللہ کے اجارہ دار بیٹھے ہیں۔ اللہ سے ملنا ہے تو غریبوں کے محلے میں جاؤ، وہاں اللہ خود بیٹھتا ہے۔ اس کا نام چاروں طرف گونجتا ہے۔ وہاں گھر میں، رشتے ہیں، مامے چاچے ہیں، وہاں اپنے ہیں، وہاں ہمدردی کی محبت ہے، وہاں ملک کی لگن ہے، درد ہے۔