تعارف

نجیبہ عارف کی زبانی

زندگی کا لمبا چوڑا سوالنامہ میرے ہاتھ میں آیا تو میں دم بخود رہ گئی۔ مجھ سے بے رنگ خاکوں میں رنگ نہیں بھرے جاتے، ادھوری کہانیاں پوری نہیں Dr Najeeba Arifہوتیں، خالی جگہ کو پورا کرنا تو اور بھی مشکل۔۔۔ کبھی لفظ نہیں ملتے کبھی معانی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ پھر ایسی گنجلک تحریر کو موزوں عنوان دینا ۔۔۔ ناممکن!!! کم از کم میرے بس کی تو بات نہیں۔ نہ کوئی خلاصہ کام آئے ، نہ ٹیسٹ پیپر۔ گائیڈ بکس ہیں کہ فہم سے باہر۔ قریب آنے والے ہر شخص کی کمر پر ٹہوکا دیا، ” سنو تمہیں جواب آتا ہے؟ مجھے بھی بتاؤ!!!“ در در پر بھٹکتی رہی، ”کوئی ہے جو مجھے راستہ دکھائے؟ میری لاٹھی بنے؟ میرے سوالوں کے جواب دے؟ ۔۔ ۔ ۔۔کوئی ہے؟ ۔۔۔ کوئی ہے؟“
یونہی ٹھوکریں کھاتے کھاتے ”علی پور کا ایلی“ میرے ہاتھ لگ گئی۔ ابن انشا نے کہا تھا، ”علی پور کا ایلی“ گناہ گار کی محفل ہے۔ عورت ہونے کے ناتے مجھے اس محفل میں شامل ہونے کا حق تو نہ تھا، نہ مجھ میں علی پور کا ایلی بن جانے کی تاب ہی تھی، مگراس کا کیا علاج کہ کسی نہ کسی طرح میں اپنی ناکردہ کاری کی حسرتوں کی داد خواہی سیکھ چکی تھی چنانچہ میں نے بڑے اہتمام سے شروع سے لے کر آخر تک ” ایلی“ کی زندگی خود پر بتا لی اور جب کتاب ختم ہوئی تو میں بھی اس کے ساتھ ساتھ ”نجانے کہاں سے چمکنے والی کرن اور نجانے کدھر کو لے جانے والے راستے “ کی منتظر کھڑی کھڑی رہ گئی۔ حالانکہ مفتی جی کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق یہاں تک پہنچنے کے لیے چار مرحلوں سے گزرنا لازم تھا:
۱۔ کسی سے ٹوٹ کر محبت کرنا
۲۔ محبت میں یوں کامیاب ہونا کہ محبوب تخت پر بٹھا کر مورچھل کرے
۳۔ پھر لات مار کر تخت سے نیچے گرا دے اور خوب تذلیل کرے
۴۔ اور آخر میں محبوب اور محبت سے بے نیاز ہو کر کسی بالاتر حقیقت میں گم ہو جانا
میں نے جب یہ کتاب پڑھی تب تک ابھی پہلا مرحلہ بھی سر نہ ہوا تھالہٰذا کامیابی یا ناکامی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ از خود بھی کسی نے مجھے مورچھل کے لائق نہیں جاناتھا کہ تذلیل کی کوئی صورت پیدا ہوتی۔ مجبوراً میں سیدھی بچپن کی بے خبری سے نکل کر ادھیڑ عمر کی بے نیازی کے لق و دق ویرانے میں جا بیٹھی اور میری حالت اس برائلر چوزے کی سی ہو گئی جو ماں کے سینک اور اکیس دن کی تپسیا کے بغیر ہی انڈے سے باہر نکل آتا ہے اور پھر کبھی واپس نہیں جا پاتا۔ یہ کیسے گنا ہگار کی محفل تھی جس نے مجھ سے چار دن کی فرصت گناہ بھی چھین لی اور پروردگار کے حوصلوں کو طعنہ دے کر دل ٹھنڈا کرنے کی صورت تلافی بھی۔
غصّے ، حسد اور جلن سے جو کمزور لوگوں کا وتیرہ ہے، میری کنپٹیاں سلگنے لگیں۔ بے اختیار ہو کر میں نے ایلی کو خط لکھا:
”کیوں؟ ۔۔۔ آخر کیوں؟۔۔۔۔ تجھے کیوں بلا لیا گیا؟۔۔۔ کیوں نواز دیا گیا؟؟؟ مجھے کیوں نہیں؟ بتا اوئے ایلی!!! “ میں نے جیسے بازار میں کھڑے ہو کر اس کا گریبان کھینچ لیا۔
”ہاں ، میرا اندر بھی کالا ہے۔ ناپاک ہے، آلودہ ہے۔ مجھے کیوں نہیں کوئی دھوبی ملا؟ آخر اس کا Criteria کیا ہے؟ نہ عابدوں سی عبادت قبول، نہ زاہدوں سا زہد منظور، نہ دعاؤں سے پسیجتا ہے، نہ خطاؤں پہ ریجھتا ہے، آخر وہ تیرا کالے کوٹھے والا کن اداؤں پہ فریفتہ ہے؟۔۔۔ “
رو رو کر میری آنکھیں سوج گئیں اور خط کے صفحے پر لفظوں کی سیاہی پھیل گئی۔
جواب میں ان کا شوخی سے مسکراتا ، آنکھیں مارتا خط آن پہنچا۔
”۔۔۔۔ تو نے ڈگڈگی بجائی، بندر بد مست ہو کر گھگھری پہنے بغیر ناچا۔
اسّی سالہ بڈھے کی محبوبہ بننے سے فائدہ؟
یا اﷲ ! یہ میری جنت میں سانپ کیسے آگیا؟
اپنی تصویر بھیجو۔۔۔“
اور آخر میں کسی نظم کی وہی چند سطریں جو وہ مجھ سے پہلے اور ۔۔۔ بعد میں بھی ۔۔۔ نجانے کتنی لڑکیوں کو خط میں لکھ لکھ کر بھیجتے رہتے تھے۔۔۔

وہ شیشہ ہائے مے کشی
کہ مصلحت اسی میں تھی
جنہیں وہیں پڑے پڑے
وہیں کی خاک کھا گئی
پھر ان کو دھو رہا ہوں میں
یہ کیا بنا رہا ہوں میں
میں ہکا بکا رہ گئی۔

پھر ہر خط میں میری تصویر کشی ہونے لگی۔کبھی۔۔۔ ”تو شخصیت کی ہری بھری پھولوں والی ٹہنی پر بیٹھی ہے پھر روتی کیوں ہے؟“ کبھی ، ”تو کچ کا تڑکا ہوا گلاس ہے باہر سے ثابت دکھتا ہے پر ذرا ہاتھ لگا تو ریزہ ریزہ ہو جائے گا“ ۔ ان تمثیلونے میری خود کو سمجھ پانے کی ہر امید ختم کر دی۔لیکن اتنا ضرور ہوا کہ میری توجہ خود سے ہٹ کر ان رنگین باتوں پر مرکوز ہو گئی۔ ایک بار ”شو“ میں آکر میں نے اپنی ایک نظم لکھ بھیجی۔
جواب آیا، ” دیکھ ، میں تو پہلے ہی تیری لیاقت کا قائل ہو چکا ہوں۔ جب کوئی مان جائے تو کرتب دکھانا Over doing ہو جاتا ہے۔ “
میرے پروں پر اوس پڑ گئی۔
پھر ایک دن ہسپتال سے ان کا خط آیا ۔ لکھاتھا:
”تو نے پہلا خط جو مجھے لکھا تھا، وہ از خود نہیں لکھا تھا۔ وہ خط لکھنا تجھ پر عائد کر دیا گیا تھا۔میں بیمار ہوں ، جانے والا ہوں، ”وہ“ مجھ سے پوچھیں گے، وہ ناؤ ڈب جھلکے کھا رہی تھی، تو نے اسے بچایا کیوں نہیں؟ ڈوبنے کیوں دیا؟ ہو سکے تو مل جاؤ۔۔۔“
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ڈب جھلکے کھاتی ہوئی ناؤ نے اترا کر سوچا، چلو کام بن گیا۔ کسی نامعلوم ”وہ“ نے جاتے ہوئے ممتاز مفتی کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ اب یہ پتوار لے کرطوفانوں کے بالمقابل زور لگائے گا اور میری ناؤ کو دوسرے کنارے کی بہشت تک لے جائے گا۔ جہاں ہر دیوار پر میرے سوالوں کے جواب لکھے ہوں گے۔ ہر موڑ پر ہدایت نامہ آویزاں ہو گا، ہر چوراہے پر راہنمائی کے فرشتے منتظر کھڑے ہوں گے۔ مجھے سب پتہ چل جائے گا، معرفت عطا ہو جائے گی، وجدان، ایمان، ایقان سب حاصل ہو جائے گا۔ میں کافر سے مومن ، مردود سے محبوب ہو جاؤں گی۔پر کچھ بھی نہ ہوا۔
اسلام آباد کے ایک زمین دوز سے مکان کے ملاقاتی کمرے میں میلی کچیلی خاکی قمیض اور ملیشیے کی شکنوں بھری شلوار میں ملبوس مفتی جی نے مجھے دو چاربار اٹھا بٹھا اور گھما پھرا کر غور سے دیکھا، میرے کپڑوں کے رنگ اور چہرے کے نقوش پر گہرا تبصرہ کیا ، اپنی چبھتی ہوئی تیز نظروں سے سر تا پا میرا بھر پور جائزہ لیا اور وہ باتیں کرنے لگے جن سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
”تم ایک نہیں دو ہو ، یہ نہیں ، وہ ہو،“ قسم کی باتیں۔
میں نے دل میں کہا دو کیوں ، سو کہئے، مگرمیں تو یہ پوچھنے آئی ہوں کہ میری باری کب آئے گی؟ آئے گی بھی یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو چلو نہ سہی۔۔۔۔ مگر پھر یہ بھانبھڑ سا میرے اندر کیوں مچا رکھا ہے؟ میرے تلووں سے انگارے کس لیے باندھ دیے ہیں؟
مگر مفتی جی نے مجھے اس طرف آنے ہی نہ دیا اور میں جیسی گئی تھی ویسی ہی لوٹ آئی۔ میلی چیکٹ، کالی سیاہ، خالی ڈھول۔ ۔۔ تڑپ اور بڑھ گئی۔ مفتی جی سے خط و کتابت ختم ہو گئی۔ راستے دھند سے اٹے رہے۔ نظرڈبڈبائی ہوئی، قدم ڈگمگائے ہوئے۔
کم و بیش تین سال بعد ازدواجی زندگی کے آغاز ہی میں مفتی جی نے آشیر باد دے کر ہمیں اسلام آباد بلا لیا۔ اسلام آباد میں سوائے ان کے ہمارا کوئی نہ تھا۔انہوں نے بھی پہلے دن سے لے کر اپنی وفات کے دن تک ہم دونوں کو اپنے دوارے بٹھائے رکھا۔۔۔ اپنے گوڈے موہرے۔۔۔۔ مگر یہ رشتہ پیری مریدی کا نہ تھا۔ یہ مدّاح اور ممدوح کا رشتہ بھی نہ تھا۔ یہ تو لڑائی جھگڑے کا رشتہ تھا۔ انہوں نے کبھی میرے کسی سوال کا ٹھیک سے جواب نہ دیا۔ الٹا وہ میرے سوال ہی رد کر دیتے۔ میں جھلاّ کر لڑتی تو وہ بھی مقابلے پر اتر آتے۔ مجھے طعنے دیتے:
”اوہو! معاف کیجیے گا ، میں بھول گیا تھا کہ آپ استانی ہیں۔ آپ صرف استانیوں کی طرح سوچ سکتی ہیں۔ “
پھر وہ استادوں اور استانیوں کے متعلق اپنی سو بار سنائی ہوئی کڑی آرا اور Masters are monsters والی کہاوت کو نہایت تفصیل سے دوبارہ گوش گزار کرتے۔میں چلّا کر کہتی:
”ہاں! میں استانی ہوں، نہ بھی ہوتی تو ایسی ہی ہوتی۔ یہ استانی پنا میرے خون میں ہے۔ پر یہ کس نے ڈالا؟ کس نے بنایا مجھے ایسا؟؟ بتائیں میں خود بنی ہوں ایسی؟ “ اگر ان کے گھر والوں کا ڈر نہ ہوتا تو شاید میں ان کا کالر نوچ لیتی۔پھر وہ ہنستے۔ پینترا بدلتے۔
”جس نے ایسا بنایا ہے اس نے کچھ سوچ کر ہی بنایا ہو گا نا؟ کوئی مقصد تو ہو گا اس کا!!! تو کیوں نہیں اس مقصد کو پورا کرتی؟ اس غصّے کوکام میں کیوں نہیں لاتی؟ تخلیق کے کام میں ۔۔۔۔ تو لکھتی کیوں نہیں؟؟؟
میں پھر بحث و تکرار میں مبتلا ہو جاتی۔
انہوں نے مجھے کبھی کوئی اور نصیحت نہ کی تھی۔کرتے بھی تو میں کہاں مانتی۔ ہاں بس ایک بار جب وہ سردیوں کی دھوپ سینکنے، گھر سے باہر ، جنگل کے کنارے، لوہے کی کرسی ڈال کر تنہا بیٹھے تھے، اور قریب ہی بڑے سے پنجرے میں اصغری کے مرغے مرغیاں کٹ کٹا رہے تھے، انہوں نے مجھے سختی سے ڈانٹا اور وصیّت کے لہجے میں نصیحت کرتے ہوئے کہا:
”دیکھ! محبت کو کبھی مت ٹھکرانا!چاہے وہ کتنی ہی عام، سطحی سی محبت ہی کیوں نہ ہو۔ لوگوں سے محبت کر، انہیں امید دلا، بے آس نہ کرنا۔ اور اگر کوئی تجھ سے محبت کرے تو اس کو قبول کر۔“
پھر بولے ، ”خبردار آج سے یہ تیری ڈیوٹی ہے۔ شکر کر ابھی میں خود کہ رہا ہوں، سیدھی طرح نہ مانی تو کوئی بابا پیچھے ڈال دوں گا۔ ڈیوٹی لگ جائے گی، پھربیٹھ کر روتی پھرے گی۔
میں نے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔ ” خدا کے لیے آپ مجھے کوئی اور کام دے دیں۔ میں محبت نہیں کر سکتی۔ مجھے جھوٹ موٹ کا دل رکھنا بھی نہیں آتا۔یہ میرے بس کی بات نہیں۔ “
اس دن مفتی جی مجھ سے بہت مایوس ہوئے۔ انہوں نے مجھے بری طرح ڈانٹا۔
”تجھ میں تکبر ہے، انا ہے، تیری ”میں“ ابھی تک نہیں ٹوٹی۔ تو خود کو اونچا سمجھتی ہے۔ ”خورے ایہو جئی مغرور کڑی نوں اﷲ نے ایڈا وڈا انعام کیویں دے دتّا؟“
اشارہ عارف کی طرف تھا۔ میں برداشت نہ کر سکی۔ رو پڑی اور یہ بھی نہ کہ سکی کہ مفتی جی! کچھ لوگوں کے مقدر میں محبت کی تمنا تو ہوتی ہے، استعداد نہیں ہوتی۔اور مقدر سے کوئی کب تک لڑ سکتا ہے؟
لیکن مفتی جی ہمیشہ ایسے کٹھور بھی نہ بنتے۔ جب ان کی بیگم میرے میاں کی تعریف کرتیں اور کہتیں ، ”منڈا تے بہت چنگا اے پر کڑی چے ذرا کنی اے “ ۔ تو مفتی جی کانی آنکھ سے میرے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھتے اور فوراً نہایت سنجیدہ اور فکر انگیز لہجے میں بول اٹھتے:
”پر اک گل اے۔۔۔ تو دوجیاں تے اثر پا سکدی ایں۔ موثر ثابت ہو سکدی ایں۔ بس تو کجھ کردی نئیں۔ پتہ نئیں تو کیوں نئیں میری گل مندی۔ ۔۔ کیوں نئیں لکھ دی۔۔۔۔ ناں ، میرے نال گل کر، آخر میں تیرا کی وگاڑیا اے؟ “
مجھے ذرا بھی پتہ نہ چلتا کہ کس طرح وہ اینٹ پر اینٹ رکھ کر میری شخصیت کے ملبے کو از سر نو تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔اکثر کہا کرتے:
دیکھ! نقوش کا حسن پائدار اثر نہیں رکھتا، جو چیز لوگوں کو باندھ لیتی ہے، غلام بنا لیتی ہے، وہ ذہنی حسن ہے۔ نقوش کی محبت زیادہ سے زیادہ ایک دو سال چلتی ہے پھر ختم ہو جاتی ہے، Personalityکی محبت ساری عمر رہتی ہے۔ تو بھی اپنے اندر Intellectual attractionپیدا کر۔ اور یاد رکھ، خالی مطالعہ سے حسن پیدا نہیں ہوتا۔ ڈنک تو لکھنے میں آتا ہے۔ تو مجھ سے ڈنک مارنا سیکھ لے! !! “
لیکن ان سب باتوں کا فائدہ کیا ہے؟ سیکھ لیا تو کیا ہو گا؟ میرا مطلب ہے زیادہ سے زیادہ کیا؟؟؟ نفس کی ایک ہلکی سی تسکین؟ وہ بھی کچھ عرصہ کے لیے ۔۔۔ پھر ایلو پیتھک دواؤں کی طرح اس کی خوراک بھی بڑھانی پڑے گی۔ میں پوچھتی ہوں آخر اس کی کوئی حد بھی ہے؟ “ ۔۔۔میں اپنی جھوٹی اور خود فریب درویشی نماجہالت کا فخریہ اعلان کرتی تووہ غصے سے دیوانے سے ہو جاتے۔
”فائدہ؟؟ تجھے فائدے کا کیا سوال ہے؟ زندگی کا کیا فائدہ ہے؟ مجھے دیکھ ۔۔۔ مجھے کیا فائدہ ہے؟ ۵۰ آدمی روز مجھے ملنے آتے ہیں، آکر دل کے دکھڑے سنا جاتے ہیں،کیوں بھئی۔ میں کوئی حکیم ہوں، یہی بات پیدا کی ہے نا میں نے اپنے اندر۔ میں کتنے لوگوں پر Effectiveہوں، یہ تھوڑا فائدہ ہے۔کل کو اﷲ تعالیٰ مجھے بلا کر پوچھیں گے، ہاں بھئی کیا کیا تم نے وہاں؟ تو میں جواب دوں گا کہ ” جناب! میں ہزارہا لوکاں دے اندر دیوا بالیا اے اور تیرے اندر بالن دی کوشش کر ریا آں، تو بالن ہی نئیں دیندی!!! “
وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر ایک زوردار تالی بجاتے اور بھرپور، مطمئن اور مسرور قہقہ لگاتے۔
اب انہیں کیا منہ دکھاتے وہ بہت جھوٹے تھے۔ جھوٹی تعریفیں کرتے، جھوٹی محبت جتاتے، جھوٹی تسلیاں دیتے، مگر ان کا کمال یہ تھا کہ ہم سب صدق دل سے ان کے جھوٹ کو سچ تسلیم کر لیتے۔ وہ دلوں کے چور پکڑکر انہیں سے لوگوں کو بلیک میل کر لیتے اور لوگ خوشی خوشی یہ سب جھیل جاتے۔ انہوں نے کبھی پکڑائی بھی تو نہ دی۔ ادب بھی ان کا نرا پراپےگنڈا ہی تھا۔ اﷲ میاں کا پی۔ ٹی۔ وی۔ سمجھ لیجئے، کبھی جنس کا جھنجھنا بجایا تو کبھی تصوف کی راگنی چھیڑی، مگر اندر سے کٹر مولوی تھے۔عورت سے پردہ کرنے کو تو نہیں کہتے تھے مگر دل ان کا یہی چاہتا تھا کہ اس مخلوق کو مرد سے اتنے فاصلے پر رکھیں کہ وہ اسے پانے کے لیے مچل مچل کر بے حال ہو جائے۔اور پھر جب کامیابی ہو تو اپنی طلب کی شدت کے مقابلے میں یافت کی بے مائیگی کو محسوس کرکے اس قدر مایوس ہو جائے کہ روح کی جھونپڑی میں پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ ان کا خیال تھا اس کھیل کا سارا لطف اسی بے تابی میںہے اور اصلی مقصد یہی جھونپڑی۔ عورتوں کو یہ جھاکہ دے رکھا تھا کہ وہ ان کے سچے ہمدرد اور ان کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ چنانچہ بلا تفریق تمام ساسوں کے خلاف تھے اور بہوؤں کے احساس بے چارگی کو ہوا دیتے رہتے تھے، جب کوئی عورت سسرال کی شکایت بیان کرتی تو تقریباً آبدیدہ ہو کر اس کی حکایت غم سنتے اور پھر اس کے ساتھ مل کر اس کی ساس کو خوب جلی کٹی سناتے ۔ حتیٰ کہ وہ عیوب بھی اس سے وابستہ کر دیتے جن تک ابھی بہو کی فہم نارسا کا ہاتھ نہیں پہنچا تھا۔ لیکن جب مشورہ دینے کا وقت آتا تو کبھی بغاوت کی اجازت نہ دیتے، ہمیشہ سمجھوتے کی مار مارنے کی تلقین کرتے اور اس طرح کرتے کہ بہو بے چاری اسی کو اپنا مہلک ہتھیار سمجھ بےٹھتی اور اسی کے بھروسے پر نئے حوصلے سے میدان حال زار میں کود پڑتی۔ اور تو اور عورت کے بارے میں اس قدر رجعت پسندانہ خیالات کے مالک تھے کہ انہیں دفتری ملازمت کا مشورہ دینے سے صاف انکار کر دیتے۔ حالانکہ استادوں اور استانیوں کو صدق دل کی گہرائیوں سے برا اور ناقابل اصلاح سمجھتے لیکن ان کا خیال تھا کہ عورتوں کے لیے مناسب ترین صورت روزگار یہی ہے کیونکہ اس میں بچوں کی تربیت کے لیے سب سے زیادہ وقت میسر آ سکتا ہے۔ اسی بات کو اگر وہ برملا کہ دیتے توترقی پسند عورتیں انہیں کچاچبا جاتیں مگر وہ انہی ترقی پسندوں کے مرشد سمجھے جاتے تھے۔ خدا جانے کیا کیا ہیر پھیر کرتے تھے۔ ان کا فلسفہ¿ حیات بڑا مختصر اور سادہ تھا۔ چودہ سو سال پرانا بھی۔ مگر فرائیڈ اور ہیولاک ایلس کے پردے میں خوب ناٹک کھیلتے رہے۔ آخر اپنی آخری کتاب ”تلاش“ میں کھلے مگر اس کے چھپنے سے پہلے پہلے خود پردہ کر گئے۔ عورتوں سے ڈر گئے ہو ں گے۔ ساری عمر انہی کی محفل میں راجہ اندر بنے بےٹھے رہے۔
جب سرفراز شاہ صاحب نے انہیں تصوف پر ایک کتاب لکھنے کا مشورہ دیا تو بڑا پاکھنڈ مچایا:
”میں نہیں لکھوں گا کتاب تصوف پر۔ لکھ ہی نہیں سکتا ۔ میں کوئی صوفی ہوں۔مجھے تو تصوف کی الف بے بھی نہیں آتی۔ کوئی زبردستی ہے۔“
شاہ صاحب نے کہا کہ حکم ہو چکا ہے، یہ آپ کو لکھنے پڑے گی۔ مگر انہوں نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ یہ حکم جب براہ راست مجھ تک پہنچے گا تب دیکھوں گا۔پھر سنا کہ سلطان باہو ؒ کے دربار سے بھی پیغام آگیا۔ پہلے تو مفتی جی نے حسب عادت اڑی کرنے کی کوشش کی کہ میں تو کسی اور کے حکم کا پابند ہوں۔ جواب ملا ، اقلیم سخن ہمارے پاس ہے، ہمارے حکم کی تعمیل ہو!!! مفتی جی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔پھر کوئی اجنبی صاحب انہیں قرآن پاک کے متعدد نسخے عنایت کر گئے ۔ ساتھ ہی تفاسیر اور تراجم بھی۔ مفتی صاحب انہیں جٹ گئے۔ علما کی کتابیں، صوفیا کی کتابیں، نومسلموں کی سوانح عمریاں، مغربی مصنفین کی تحقیقات ۔۔۔ آخر” تلاش “ کی قسطیں لکھنا شروع کر دیں۔ ہر قسط وہ ہر آنے جانے والے کو پڑھاتے، اس سے رائے طلب کرتے، مشورے مانگتے، تجاویز کو غور سے سنتے اورپھر ان سب کو ایک ایک کر نہایت سنجیدگی سے رد کرتے اور وہی لکھا رہنے دیتے جو انہوں نے پہلے سے لکھ رکھا ہوتا۔جب تمام قسطیں ختم ہو گئیں تو ایک دن انہوں نے عکسی مفتی کو ڈرائینگ روم میں طلب کر کے ان کے سامنے میری قابلیت کا اعتراف کیااور مجھے اپنا دست راست تسلیم کرنے کے بعد عکسی مفتی کو آگاہ کیا کہ وہ ”تلاش“ کا مسودہ برائے ترتیب و تدوین میرے حوالے کر رہے ہیں تاکہ ان اقساط کو ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔ مگر میری بدقسمتی، ایک تو گواہ کی یادداشت کچی نکلی اور دوسرے میں مفتی جی کی باتوں میں آکر سچ مچ اس کی ترتیب و تدوین میں مصروف ہو گئی چنانچہ میں نے بڑی محنت اور اہتمام سے تمام اقتباسات کو آگے پیچھے کر کے موضوع وار ترتیب مکمل کی۔ یعنی ایک باب میں سائنس کے متعلق خیالات، دوسرے میں علم کے متعلق تمام مواد، اگلے میں سزا جزا اور تصور آخرت اور آخری میں پاکستان اور اس کا مستقبل۔
مفتی جی نے دیکھا تو سر پیٹ لیا۔ اپنا نہیں ، میرا۔
مجھے شدت کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا۔
”جناب! یہ ادبی کتاب ہے کوئی خلاصہ یا ٹیکسٹ بک نہیں ہے۔ میں تو اسے کتاب بھی نہیں بنانا چاہتا۔ کتاب باتیں نہیں کرتی، میں چاہتا ہوں میری تحریر باتیں کرے، روزمرہ کی ، ہلکی پھلکی باتیں۔ کوئی ادھر کی کوئی ادھر کی، اگر میں آپ کے مشوروں پر عمل کروں تو کون میری تحریر پڑھے۔ ۔۔ لیکن قصور میرا ہے۔ میں بھول گیا تھا کہ آپ کی ذہنیت وہی ہے، استادانہ۔۔۔ اور Masters are monsters۔ چنانچہ ”تلاش“ کا مسودہ ترتیب نہ پا سکا اور آخر میں اسی طرح چھپا جس طرح قسط وار ”قومی ڈائجسٹ“ میں شائع ہوتا رہا تھا۔
لیکن ایک بات ماننے کی ہے، باوجودیکہ، ہم ہمیشہ مفتی جی کی غلطیاں نکالنے اور ان کی اصلاح کرنے کے درپے رہتے تھے اور وہ کبھی ہم سے کسی بات پر متفق نہ ہوئے تھے، انہوں نے ہمیشہ ہماری فکروں کو اپنی فکریں بنائے رکھا۔ کبھی عارف کی نوکری کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے، کبھی کرائے کے مکان کی تلاش میں سرگرم ہو جاتے، ہمارے لیے سرکاری مکان کی تلاش میں تو بے حد سرگرداں رہے۔ پہلے ہمیں بیگم سرفراز اقبال کے ہاں یہ کہ کر بھیجا کہ ”جاؤ ، اوہ وزیراں چے کھیڈدی اے، مکان لے دے گی۔“ پھر جب سرفراز شاہ کے قائل نہ رہے اور گجر خان کے پروفیسررفیق اختر صاحب کی طرف مائل ہوئے تو ہمیں بھی سکھا پڑھا کر ان کی خدمت میں روانہ کیا۔
”جا کر کہنا، عالی جاہ! سرکاری مکان چاہئیے، بس! “
ہم نے بالکل ایسا ہی کیا۔ جواب میں پروفیسر صاحب نے ہم دونوں، میاں بیوی کی شخصیتوں کا کچا چٹھہ یوں کھولا کہ ہمارے ہوش اڑ گئے۔
آپ بہت Possessive ہیں۔ کیا خیال ہی خیال میں دنیا فتح کرنے کا ارادہ ہے، یا کچھ عمل بھی کریں گی۔ عارف ؟ وہ تو اپنے آپ میں گم رہتا ہے۔ جوڑی اچھی ہے۔ Made for each other مگر یہ دونوں کے اندر تنہائی سی کیوں ہے؟ یہ آپ کا نام نجیبہ کس نے رکھ دیا؟ کس قدر غیر مناسب نام ہے۔۔۔“
میں نے منمنا کر کہا، جناب اب اس عمر میں نام توتبدیل نہیں ہو سکتا۔
”حال تو تبدیل ہو سکتا ہے۔“ وہ بولے۔
”وہ کیسے؟؟“
”ایسے۔۔“انہوں نے ایک پرچے پر اﷲ کے چند نام لکھے اور ہر ایک کے سامنے ”تین سو بار روزانہ“ لکھ کر پرچہ میرے حوالے کر دیا اور اگلے سائل کی طرف متوجہ ہو گئے جیسے ہم نے ان سے مکان کی بات ہی نہ کی ہو۔مفتی جی کو بتایا تو بڑی چالاکی سے مسکرائے ۔ پھر عام سے لہجے میں یونہی برسبیل مشورہ کہنے لگے، ”چلو پڑھ لیا کرو، تین سو بار نہ سہی، جتنی بار بھی پڑھا جائے، میں بھی یونہی کرتا ہوں ۔“ یہ کہ کر انہوں نے تکیہ اٹھا کر اپنی تسبیح کی ایک جھلک دکھائی اورپھر جلدی سے تکیہ واپس رکھ دیا۔ مگر اس وقت تک میری توجہ حال بدلنے سے ہٹ کرمکان بدلنے پر مبذول ہو چکی تھی ، نتیجتاً حال بدلا نہ مکان۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اسی لیے میرے اور ان کے معاملات آخر دم تک طے نہ ہوئے۔ میں نے جو امیدیں ان سے لگائی تھیں ، افسوس وہ پوری نہ ہوئیں۔ مجھے میرے سوالوں کے جواب نہ مل سکے۔ انفس و آفاق کے مسئلے حل نہ ہوئے۔ کسی دھوبی نے میری صفائی ستھرائی کی ذمہ داری قبول کی نہ کوئی رنگریز مجھ بد رنگی کو رنگ برنگی کر سکا۔ سبھی ہنر مند اپنے فن میں کامل اور اس باریک سے نکتے سے واقف نکلے کہ بے رنگ کو رنگنا آسان اور بد رنگ کو رنگنا کارے دارد!!!
الٹا مفتی جی جاتے جاتے ایک اور ہاتھ کر گئے۔ میرے ان چبھتے ہوئے نوکیلے سوالوں کی دھار ہی کند ہو گئی۔ اب میرا دل کالے کوٹھے والے کے دربار میں کھڑے ہو کر ”کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟ “کا علم بغاوت بلند نہیں کرتا۔ ”اچھا ، تیری مرضی! ” کہ کر نمانوں کی طرح چپ ہو رہتا ہے۔ وہ ہر چہرے ، ہر دروازے کو کھٹکھٹکا کر پوچھنا ، ”کوئی ہے ،جو میری رہنمائی کرے۔ وہ تلاش کی دیوانگی، وہ بلا کا اضطراب، وہ شدت کی آندھی، وہ غصے کا غبار، وہ تلخی کا طوفان تھم سے گئے ہیں۔ زندگی سرکاری مکان کے بغیر بھی قابل قبول اور گوارا سی لگتی ہے۔ جب بھی حساب کم و بیش کے چکروں میں پڑتی ہوں، تو نجانے کیسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ فائد ے کا پلڑا بھاری ہے، عطائیں زیادہ ہیں، شکوے کا محل ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ مفتی جی نجانے کتنوں سے یہ ہاتھ کر گئے ہیں۔

6 Comments

  1. Najeeb G ! essence of this article is enough to grind me, to shake me, make me to cry for rest of the day…..stay blessed .

  2. Najeeba ji, Bohat Bohat Umdah, Mufti sahab isi liye kahtay thay k aap likhain,,, ap ky likhay main taseer bohat hy,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button