لکھ یار
حیات از قلم عظمیٰ خرم
- #پری_اپرووڈ
- #حیات_پارٹ_22
- ساری رات طوفان نے تباہی مچائی رکھی،وجاہت کو نکلنے کا موقع ہی نا مل سکا…… “مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تھا یا کم از کم کیسے بھی کر کے اسے ساتھ لے کر آتا….. اب پریشانی سے سر درد سے پھٹا جا رہا تھا….. الله کرے سب خیر خیریت ہو…. کل سے فون ملا ملا کے تھک گیا تھا وہ پر شائد لائن خراب تھی…. دو دن کا کہہ کے آیا تھا اور اب چار دن ہو گئے تھے “-
- انہی سوچوں میں گم اپنے آپ کو کوستے وہ تیز رفتاری سے گاڑی بھگا رہا تھا پر تبھی اچانک اسے بریک لگانی پڑی گاڑی بے قابو ہو کر سڑک سے اتر گئی تھی –
- حواس قابو میں کرتے ہیں وجاہت گاڑی سے اترا اور اس اجنبی کو گریبان سے پکڑ لیا،”پاگل ہو تم? جاہل انسان! مرنے کا اتنا شوق ہے تو کوئی اور طریقہ ڈھونڈتے،ایسے ایک دم گاڑی کے آگے آ کے کیوں دوسروں کو بھی آزمایش میں ڈالتے ہو?” اس سے پہلے کہ بختاور اس کو دو ہاتھ جڑ دیتا اس کے ساتھ کھڑی عورت بیچ بچاو کرنے لگی “نا صب جی نا! ہمیں معاف کر دیں،آپ کو آپ کے بچوں کا واسطہ….. ہم بڑے مظلوم لوگ ہیں،پچھلے دو گھنٹے سے راہ دیکھ رہے ہیں ایک گاڑی نہیں ملی جو ہمیں اڈے تک پہنچا دے،اپاہج بچے کا ساتھ ہے،پیدل چل بھی لیتے تو کتنا -“
- اس نے ہانپتے ہوے جلدی جلدی اپنی بات پوری کی،وجاہت نے سڑک کے ایک طرف زمین پر لیٹے آٹھ،دس سال کے بچے کی طرف دیکھا….. نا چاہتے ہوے بھی اسے ترس آ گیا.
- قافلہ چل پڑا تھا،”الله کے بندے یہ لفٹ مانگنے کا کون سا طریقہ تھا… کہ تم نے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کی? ” وجاہت نے دبے دبے غصے سے اسے سرزنش کی –
- “جان کا کیا ہے چوہدری صب آج ہے کل نہیں….. ہم دونوں جی تو جانے کب کے مرے ہوے ہیں…. زندہ لاش کی طرح ہیں بسسس دن پورے کر رہے ہیں…. -“
- وجاہت نے ایک حیرت بھری نظر اس اجنبی کی جانب اچھالی –
- “شادی کے کوئی بیس سال بعد رب سوہنے نے اولاد سے نوازا پورے چار پنڈ تک مٹھائی بانٹی تھی میں نے……. پتا نہیں کس کی نظر کھا گئی ہماری خوشیوں کو پھر ایک دن بیٹے کو بخار ہوا، پھر بخار تو اتر گیا پر بیٹے کی ٹانگیں بے جان ہو گئیں،پانچ سال ہو گئے بیٹے کو گود میں اٹھاے اٹھاے شہر شہر،قصبہ قصبہ کوئی ڈاکٹر کوئی حکیم نا کوئی پیر نا فقیر کوئی نا چھوڑا پر میرے بیٹے کو شفا نہ ملی – بس آپ ہمیں جلد از جلد باہر والے بڑے اڈے پر اتار دیں،آپ کو دعائیں دیں گے، ہمیں ہر صورت شام سے پہلے لاہور پہنچنا ہے، ہماری زندگی موت کا مسلہ ہے یہ -“
- اجنبی نے اپنی بات مکمل کی –
- وجاہت نے غیر دلچسپی سے اس کی بات سنی،” کیوں? اب ایسا کیا مسلہ پیش آ گیا کہ تم نے میری گاڑی رکوانے کے لیے جان کی بازی لگا دی -“
- اجنبی کے چہرے پر دبا دبا جوش انگڑائی لینے لگا،”دراصل کل رات کو میرے ایک جاننے والے کا فون آیا تھا اس نے بتایا کہ شہر کے بڑے گرجا گھر میں کچھ غیر ملکی پادری آے ہیں یورپ سے اور وہ میرے بیٹے کو ٹھیک کر سکتے ہیں،بس اسی لئے ہمارا شام سے پہلے وہاں پہنچنا بہت ضروری ہے -“
- وجاہت کو اب اس ساری الف لیلیٰ میں دلچسپی محسوس ہونے لگی، اس نے ہنستے ہوے اس قابل ترس نظروں سے اس سادہ لوح انسان کو دیکھا،”او بھائی میرے! ابھی تم نے خود ہی تو بتایا کہ تم نے ہر ڈاکٹر علاج اور دم درود بھی کروا کے دیکھ لیا ہے تو پھر اب یہ انگریز پادری ایسا کیا کر دے گا کہ تمہارا بچہ ٹھیک ہو جائے گا, کاش تھوڑا پڑھ لکھ جاتے تو آسانی سے سمجھ جاتے کہ ان کے اور ہمارے مذہب میں بہت فرق ہے….. اور ایسا کچھ نہیں ہونے والا جو تم سوچ رہے ہو -“
- اجنبی نے شدید حیرت اور صدمے سے وجاہت کو دیکھا, “چوہدری صب آپ مجھے پہلی نظر میں پڑھے لکھے،معقول آدمی لگے تھے…. مجھے لگا تھا کہ آپ میری بات سے بھلے اتفاق نہ کریں پر ایسے مذاق بھی نہیں اڑائیں گے -پہلی بات میرا نام محمد بخش ہے اور میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کیا ہوا ہے، شہر کے گورنمنٹ کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتا تھا پر آے دن بیٹے کو لے کر جگہ جگہ جانا پڑتا اس وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا –
- دوسری بات آپ کو کس نے کہا کہ ہمارے اور ان کے مذہب میں بہت فرق ہے? آپ نے وہ واقعہ نہیں سنا ہوا جب رسول الله ﷺ نے نجاشی کو خط لکھا تھا اور جب حضرت جعفر طیار رضی الله عنھا نے نجاشی کو قرآن پاک میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کے ذکر کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا کہ یہ سب سچ ہے اور ہم ایک ہی چراغ کے دو پر ہیں –
- یہ جو فرق ہے وہ تو بعد میں انسانوں کے رد و بدل یا تحریف کی وجہ سے ہے الله نے انہیں بھی مسلمان ہی بنایا تھا… اسی وجہ سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمارا ایمان تب تک مکمل نہیں ہو گا جب تک ہم ان تمام آسمانی کتابوں اور دیگر انبیا پر ایمان نہ لے آیں -“
- وجاہت نے پشیمانی سے سے دیکھا،”بہت معذرت کہ میں آپ کو ان پڑھ سمجھ بیٹھا پر آپ خود سوچیں آپ نے کون سا کوئی پڑھے لکھوں والا کام کیا تھا….. چلیں آپ کی بات سے میں اتفاق کر بھی لوں پر یہ وضاحت تو دے دیں کہ وہ آپ کے بیٹے کا علاج کیسے کر سکتا ہے -“
- محمد بخش نے مسکراتے ہوے کہا،”چوہدری صب سیدھی سی بات ہے اس کے پاس کتاب کا علم ہے،وہ کوئی کالے جادو کا دعوی تو کر نہیں رہا،لوگ کہتے ہیں وہ آج کے دور میں انجیل کا سب سے پرانا عالم ہے -اور اس میں ایسی کون سی انہونی ہے آپ نے قرآن پاک میں “آصف برخیا “کا قصہ نہیں پڑھا جس کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ الله نے اسے “کتاب یعنی توریت کا علم دیا تھا “اور اس نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت حاضر کر دیا تھا, اور ویسے بھی چوہدری صب یہ کہاں لکھا ہے کہ آپ شفا کے لئے کسی غیر مسلم کے پاس نہیں جا سکتے? میں اب تک جن ڈاکٹرز کو مل چکا ہوں ان میں ہندو ڈاکٹر بھی تھے اور عیسائی بھی, علاج کرنے والا کوئی بھی ہو شفا دینے والی تو بس الله کی ذات ہے -“
- اب وجاہت لاجواب ہو چکا تھا – بس اڈا جانے کب کا پیچھے چھوٹ چکا تھا،اب تو یہ گاڑی لاہور جا کر ہی رکنی تھی –
- باقی کا سفر اچھا خوش گپیوں میں گزرا،وجاہت نے انہیں شام سے پہلے ان کے مقررہ مقام پر پہنچا دیا – جلسہ گاہ میں لوگ آنا شروع ہو چکے تھے،سٹیج پر کرسیوں اور مائیک کی سیٹنگ کی جا رہی تھی، سٹیج پر چند انگریز پادری سفید کپڑے پہنے مقامی پادریوں سے خوش گپیاں کرنے میں مصروف تھے –
- محمد بخش نے وجاہت کے ہاتھ چوم کر شکریہ ادا کیا اور رخصت ہو لیا -وجاہت کا دل تو بہت چاہا کہ اس “آغاز ” کا،”انجام ” دیکھ کر جائے،پر پہلی وجہ وہ محمد بخش کو مایوس واپس جاتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور دوسرا اسے بختاور کی فکر ستا رہی تھی اس لئے فورا گاڑی کا رخ گھر کی جانب موڑ دیا –
- واپسی کے اس سفر میں اس کا دماغ مختلف سوچوں اور خیالات کی آماجگاہ بنا رہا،گو کہ اس نے دل سے دعا کی کہ محمد بخش کا بیٹا صحت یاب ہو جائے پر اس کے دل اور دماغ ہر دلیل سے انکاری تھے…… کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ بھی آج کے زمانے میں??
- انہی سوچوں میں غلطاں اسے سامنے کا سپیڈ بریکر نظر نہ آیا اور گاڑی کی تیز رفتاری کے باعث وجاہت کا سر گاڑی کی چھت سے ٹکرا گیا اور اس جھٹکے سے خود بخود ریڈیو چل پڑا،”جی جی بہت ہی خوبصورت واقعہ ہے کہ صحابہ کرام کی جماعت میں سے ایک صحابی نے اس غیر مسلم سردار کو قرآن پڑھ کے دم کیا اور اس دم کی برکت سے زہر کا اثر جاتا رہا تو آپ نے اس سردار سے اجرت کے طور پر بکریاں…… “
- گھر کے گیٹ پر پہنچ کر وجاہت نے تیز ہارن دیا اور گیٹ کھلتے ہی گاڑی اندر کی، اندر عجیب منظر اس کا منتظر تھا،بختاور زمین پر بیٹھی اپنا پاؤں سہلا رہی تھی جس سے خون رس رہا تھا جبکہ یاسمین اس کا زخم صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی, “شکر ہے چوہدری صب تسی سچ مچ آ گئے،پہلے وی کسی گڈی دی آواز آئی تے بی بی جی دوڑ کے بار نوں آے تے……”
- “ہاں اور آگے تو نے گملا رکھا ہوا تھا مجھے گرانے کے لئے “
- بختاور نے وجاہت کے لئے اپنی بے کلی پر پردہ ڈالنے کے لئے یاسمین کی بات اچک لی –
- یاسمین نے حواس باختہ ہو کر وجاہت کو دیکھا “نہیں صب جی قسم چکا لو اے گملا تے ایتھے ہی پیا ہوندا آے میں تے….”
- بختاور روہانسی ہو کر غصے میں بولی،”ہاں ہاں کہہ دے میں ہی اندھی ہوں جسے گملا نظر نہیں آیا….. ہاں میں ہوں اندھی تم لوگوں کے رحم و کرم پر جو پڑی ہوں -“
- یہ ساری تکرار وجاہت نے بے دھیانی میں سنی کیوں کہ بجلی کی تیزی سے ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا………. اور اگر محمد بخش جو کہہ رہا تھا وہ سب سچ ہوا تو??? اگر سچ میں اس شخص کے پاس کتاب کا علم ہوا تو???? اور اگر سب ویسا ہی ہے جیسا محمد بخش نے کہا تو……… وجاہت پوری رفتار سے گاڑی دوڑا رہا تھا….. بختاور پریشان سی بیٹھی تھی کہ آخر ایسی بھی کیا چوٹ لگ گئی اسے کہ نا نا کرنے کے باوجود وہ اسے ڈاکٹر پر لے کر جا رہا ہے –
- “بختاور تجھے الله پر یقین ہے نا?تو اس یقین سے اس سے مانگ کہ بسس تیری نظر واپس آ جائے -“
- وجاہت نے ڈرائیو کرتے بختاور کا ہاتھ تھام کر اسے کہا…..
- بختاور پھر پریشان کہ یا الله ماجرا کیا ہے چوٹ پاؤں پر لگی ہے دعا نظر لوٹانے کی مانگنی ہے –
- جلسے میں بھیڑ پہلے سے بہت زیادہ تھی…. ایسا لگ رہا تھا بسس آخری مراحل چل رہے ہیں -بختاور کو ایک جگہ بیٹھا کر وجاہت نے پنڈال میں آگے پیچھے گھوم کے دیکھا….. اس کی نظریں محمد بخش کو تلاش کر رہی تھی،تبھی وہ اسے سٹیج کے پاس دکھائی دیا،وجاہت کے بار بار پکارنے پر اس نے وجاہت کی طرف دیکھا……… محمد بخش رو رہا تھا…… اور یہ وہ منظر تھا جو وجاہت نہیں دیکھنا چاہتا تھا…. محمد بخش اجنبیوں سے بھرے پنڈال میں وجاہت کو دیکھ کر بے قراری سے اس کی جانب لپکا…… وجاہت کا دل ڈوبنے لگا….. لوگوں کو دھکیلتے،کرسیاں پھلانگتے وہ آتے ہی وجاہت سے لپٹ گیا اس کے رونے کی شدت وجاہت کا دل چیر رہی تھی…. وجاہت بھی اسے گلے لگاے رونے لگا…… عجیب بات تھی دونوں کے پاس رونے کی اپنی اپنی وجہ تھی،”بسس صبر،صبر میرا بھائی “……. تبھی ایک آواز نے ان دونوں کو اپنی جانب متوجہ کیا،”با با آپ کیوں رو رہے ہیں “
- وجاہت نے پلٹ کے دیکھا تو محمد بخش کا بیٹا اپنی ماں کے سہارے کھڑا تھا- “چوہدری صب آپ کا بہت بہت شکریہ…. رب نے آپ کو ہمارے لئے وسیلہ بنا کر بھیجا تھا”, ……. اب وجاہت کو پوری بات سمجھ آئی -وجاہت نے محمد بخش کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لئے “میری بیوی نابینا ہے….. محمد بخش…. میری مدد کرو…..”
- اب حیران ہونے کی باری اس کی تھی –
- ادھیڑ عمر انگریز بشپ بختاور کے پاس آیا اور اس کی آنکھوں کا معاینہ کرنے لگا اور ساتھ ساتھ پاس کھڑے مقامی ترجمان کو کچھ سمجھانے لگا –
- بختاور کا رواں رواں سراپا دعا تھا “یا الله اگر تیری یہی رضا ہے کہ میں مرتے دم تک اندھی رہوں تو میں تیری رضا میں راضی ہوں پر اگر تو چاہتا ہے کہ میں تیرے حبیب کا سوہنا روضۂ دیکھوں تیرا گھر دیکھوں تو تجھے اپنی عظمت کا واسطہ اپنے حبیب کی شان کے صدقے میری بینائی لوٹا دے میرے مولیٰ –
- جیسے ہی گاڑی پورچ میں آن رکی یاسمین بھاگ کر گاڑی کے پاس آئی اور بختاور کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا پر بختاور نے وجاہت کی کالی عینک لگا رکھی تھی….. خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی…. بختاور نے یاسمین کا بڑھا ہاتھ نظر انداز کر دیا….. یاسمین بھاگ کر آگے آئی اور پھر سے بختاور کو تھامنا چاہا پر بختاور نے پھر سے اسے نظر انداز کیا اور بنا ٹھوکر کھاے اندر چلی گئی…… یاسمین کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا….. وجاہت نے بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھا-
- “ہاا ا ا ا ہاے ویکھو تے ذرا بی بی دے تے تیور ہی نہیں مان….. پر اے بار کرن کی گئے سی? اینی دیر بعد واپس آے تے پیر دا زخم تے انج دا انج ای اے….”
- یاسمین نے خانسامے سے سرگوشی کی. “جا نا بھاگ کے جا پیچھے جتنا تجھ سے ناراض ہیں کہیں نوکری سے نا نکال دیں “-
- یاسمین فورا اندر بھاگی پر بختاور اپنے کمرے میں جا چکی تھی –
- بختاور نے اندر جاتے ہی وضو کیا نوافل ادا کئے اور بیتابی سے قرآن پاک نکالا…….. اس کے قرآن پاک کا غلاف مٹی سے اٹا پڑا تھا اس نے غلاف اتارا….. مٹی صاف کی اور اسے محبت سے چومنے لگی….. کانپتے ہاتھوں سے اس نے قرآن پاک کھولا…. قرآن پاک سورہٴ الضحی سے کھلا وہ بیتابی سے ایک ایک لفظ پر انگلی رکھتی اسے پڑھنے لگی….. اس کی اپنی آواز ہی اس کے لئے اجنبی تھی…… وہ رو رہی تھی….. وہ شکر گزار تھی….. اس کے رب نے پھر سے اسے “بخت آور ” ثابت کیا تھا…….
- نا جانے کتنی ہی دیر وہ بنا توقف کے ایک کے بعد دوسری سورۂ نکال کے پڑھتی گئی…… شکر گزار ہوتی گئی….. ہوتی گئی…..
- پڑھتے پڑھتے نا جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی………. کوئی بڑے ہی سوز سے سورہٴ الضحی کی تلاوت کر رہا تھا……
- اسے لگا برسوں پہلے دیکھا گیا خواب وہ پھر سے دیکھ رہی ہے…. اس نے مسکرا کے کے پھر سے آنکھیں بند کر لیں……… پر آواز اب بھی آ رہی تھی……
- وہ بے چینی سے آواز کی سمت چل پڑی………
- باہر صحن میں جائے نماز پر بیٹھے تلاوت کرتے چوہدری وجاہت نے آہٹ پر مڑ کر اسے دیکھا…….. اس کی آنکھوں میں اس کے لئے محبت ہی محبت تھی….. بختاور بنا کچھ کہے آ کر اس کے پہلو میں بیٹھ گئی……. وجاہت نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوے پھر سے تلاوت شروع کی…… اس کے بازو سے سر ٹکاے بختاور کی بند آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے……….
- وجاہت کے ہمراہ بختاور سٹیج پر موجود تھی, پہلے ان کا مذہب پوچھا گیا پھر پوچھا گیا کہ کس قسم کا اندھا پن لاحق ہے اور کب سے ہے? کیوں کہ اگر پیدائشی ہے تو اس کا علاج ممکن نہیں…
- ساری معلومات کے بعد بختاور کو کرسی پر بیٹھا دیا گیا-ایک ادھیڑ عمر غیر ملکی پادری اٹھ کر بختاور کے پاس آیا اور انگریزی زبان میں مقامی پادری کو کچھ کہنے لگا…. وہ مقامی پادری جو مترجم کے فرائض ادا کر رہا تھا وجاہت اور بختاور پاس آیا اور انہیں سمجھانے لگا ” جب ان کو دم کیا جائے تو ان سے کہیں کہ اپنے آخری نبیﷺ کے وسیلے سے خدا سے خود بھی گڑگڑا کے دعا مانگیں اور جب تک نہ کہا جائے آنکھیں مت کھولیں،اور انکے ساتھ آپ بھی دعا مانگیں -“
- ادھیڑ عمر پادری نے بختاور کے سر پر ہاتھ رکھا اور کسی قدیم انجانی زبان میں کچھ بڑبڑانے لگا…… پھر بڑبڑاتے بڑبڑاتے اس کی آواز اونچی ہو گئی اور وہ رونے لگا…. الله جانے اس لمحے کیا ہوا بختاور ہچکیوں سے زارو قطار رونے لگی اور یہی کیفیت وجاہت کی تھی…… اس کے جسم کا رواں رواں مجسم دعا تھا….. یا الله اپنے حبیب کے صدقے میری بختاور کی نظر واپس کردے……
- تقریبا دس بارہ منٹ بعد وہ ادھیڑ عمر شخص تھک کر کرسی پر ڈھے گیا اور ترجمان کو بلایا…
- ترجمان نے بختاور کو آنکھیں کھولنے کو کہا…. بختاور نے آنکھیں کھولیں تو عین سامنے وہ پادری اور ساتھ وجاہت کو کھڑا دیکھا…… بے یقینی سے بختاور ایک دم کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور وجاہت نے بڑھ کر اسے تھام لیا…. اسے دونوں آنکھوں سے دھندلا نظر آنے لگا تھا…… اس ادھیڑ عمر شخص نے اسے کہا کہ” یہ سب عارضی ثابت ہو گا،اگر اسے اپنی نظر پوری واپس چاہیے تو گھر جا کر اپنی آنکھوں کو پاک پانی سے دھوے اور اسے مرتے دم تک قرآن پڑھنا ہو گا….. لیکن اگر اس نے قرآن چھوڑ دیا تو یہ نظر بھی نہیں رہے گی “
- جاری ہے…… جاری ہے….
- از قلم “عظمیٰ خرم “