اور آپ؟
تحریر: مہجبیں خان
برساتی صبح اپنی سوندھی سوندھی مہک لیے جگانے کو ہی تھی کہ رضیہ کا رکشہ میرے دروازے پر آلگا.رضیہ میری خالہ زاد بہن ہے.اکیلی ہی تھی وہ.ارے شایان کہاں ہے? پوچھتے ہی میں نے دیکھا اسکے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا ہے اور وہ بہت اُداس دکھ رہی تھی.چہرہ نیچے جھکائے ہوئے بولی ,شایان کو ابھی اسکول چھوڑ کر آئ ہوں .کہتے کہتے وہ ایک جھٹکے سے میرے گلے لگ گئ .اور رونے لگی,میری بانہوں نے بھی اسے پیار سے جکڑ لیا,کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی,سب سمجھ رہی تھی میں,اس کا ننھاشایان آج پہلی بار اسکول گیا تھا نا,پاگل یہ کیا منھ بگاڑ رکھا ہے,آج تو بہت خوشی کا دن ہے کہتے کہتے میرا دل بھی کچھ بھر سا آیا….کیسی عجیب ہوتیں ہیں ہم عورتیں ہر خوشی کو کھٹّا میٹھا بنا لیتی ہیں…میٹھے سے میٹھی خوشی میں بھی آنسوؤں کا کھارا پن گھولے بنا نہیں رہ پاتیں….کہیں اسی لیے تو نہیں کہ ہماری ہر بڑی سے بڑی خوشیوں کے دھنک رنگ میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے,جس میں بچھڑنے کا سُرمئ رنگ چھپا ہوتا ہے…..رضیہ کو بٹھا کر چائے پلاتے,اُسے ہنساتے ہوئے میرے اندر بھی سنیما کی ریل سی چلتی جا رہی تھی……یاد آرہا تھا وہ دن جب میری سجل بھی پہلی بار اسکول گئ تھی…….اُس دن کی ہر بات کو میں نے اپنے ذہن میں حفاظت کے ساتھ سنجو رکھا تھا……سجل ابھی صرف تین سال کی ہی تھی…..دوسرے دن اسکول اُسے جانا تھا اور ساری رات سو نہ سکی تھی میں……اس رات میری بغل میں سوئ ہوئ سجل کے ہاتھ جب میں نے چھوئے تو اس نے نیند میں ہی جھٹ سے میری انگلی پکڑ لی تھی……نہ جانے سپنے میں بھی کون سے خیال رہ رہ کر آرہے ہوں گے اُسے…….کئ دن پہلے سے تیار کررہی تھی اسے……شائد اسے بھی اور خود کو بھی…..بیٹی بہادر بچّے روتے نہیں…..اسکول میں بھی خوب کھیل ہوتا ہے…..تمہیں بہت اچھا لگے گا,ٹیچر تمہیں بہت پیار کریں گی…..دیکھنا کیسے مزہ کروگی سارا سارا دن……سجل بڑی بڑی آنکھوں سے نہارتی مجھے دیکھتی سب سنتی رہی تھی……پھرچڑیا سی آواز میں مجھ سے پوچھ بیٹھی,اورآپ? اور میں ?اور میں ? اس کے بھولے سوال نے اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے دل کو چھو لیا تھا…..اور میں ? میں تمہیں اسکول چھوڑ کر سونے آنگن میں تمہارے پھینکے ہوئے کھلونوں کو اُٹھاتے ہوئے پیار کرتی رہوں گی…….اللّہ سے دعا کرتی رہوں گی کہ تمہاری ٹیچر میرے جیسا ہی پیار تمہیں دے سکیں……پھر اس ٹیچر سے من ہی من جلتی رہوں گی……کیوں کہ میری بات سے زیادہ تم اب اپنی ٹیچر کی بات مانا کروگی…….اور میں ایک ایک پل گھڑی دیکھتی رہوں گی,چل تو رہی ہے ,کہیں بند تو نہ ہو گئ…….? اس دن کی یاد کرتی رہوں گی,جب بخار میں تپتی تم میرے سینے سے لگ کر ہی سو پاتی تھی……اس دن کی یاد کروں گی جب انجانے اندھیروں سے آکر میری بانہوں کے گھیرے میں ایک چلبلے سکھ سے مجھے بھر دیا تھا تم نے…..اُن شام اور سویروں کو,جب تم بنا کہانی سنے دودھ بھی نہ پیتی تھی…….پر اب یہ سب بدل جائے گا,اس خیال سے میں بہت خوش بھی ہوں اور اُداس بھی…….نہ جانے کس کس کااثر تمہارے دل و دماغ پر پڑے گا…..تمہارے سولوں کا جواب اب میں ہی نہیں نہ جانے اور کون کون دے گا…..مجھ سے دور جانے کا قدم تم اب رکھنے ہی والی ہو اور میرا لالچی من تمہیں پھر سے اپنی گود میں چھپا لینے کو مچل رہا ہے……تم بڑی ہو رہی ہو میری لال !اور میرا یہ پاگلپن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے……میرا گھٹنا پکڑ سجل پھر بولی ….بولو نہ امّی آپ کیا کروگی سارا دن ? میں? میں ہنس کر بولی…..میں تمہارے لیے بنا شکّر والا گاجر کا حلوہ بناتی رہوں گی,وہی جو تمہیں بہت پسند ہے ڈھیر ساری کشمش والا……دوسرے دن صبح نماز پڑھ کر تمہارے تیل سے چپکے بال سنوارے اور نئے یونیفارم میں تیار ہو گئ میری بیٹی……میری بہادر بیٹی روئ نہیں تھی…..اسکول پہنچ کہ جب ٹیچر کے حوالے اسے کیا گیا تو چپ چاپ ان کی انگلی پکڑے نئے جوتے موزوں سے لیس ننھے قدموں کو جماتی بنا مُڑے دروازے سے اندر کلاس روم میں چلی گئ تھی……میں فخر سے بھری کھڑی رومال کو اپنی انگلی میں لپیٹتی رہی تھی……کلاس کے دروازے سے مڑی تواس کی آنکھوں میں ڈر اور خوف تھا….اور ان سب کو ڈھکنے کی ایک کامیاب کوشش بھی…….میں نے ہاتھ ہلا دیا اور وہ کلاس کے اندر چلی گئ……میں سکھی من اور بھیگی پلکوں سے اُسے من ہی من دعائیں دیتی ہوئ واپس گھر آگئ تھی…….میرااکیلا پڑتا من کہیں بہت پاس سے مجھے بھروسہ دلا رہا تھا…..کہ جہاں بھی جائے گی میری بیٹی ہم نے اسے جو طور طریقہ سکھایا ہے …..جو Idiol اس کے سامنے رکھا ہے اصل میں انہیں کی طاقت کے بل بُوتے پر وہ ایک اچھی انسان بنے گی…..یہی سوچتی میں گھر آگئ تھی اور آتے ہی گھڑی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا.