Anxiety by Ali Abdullah
تحریر: علی عبداللہ
بے چینی حاصل اور لاحاصل کی درمیانی حالت بے چینی کہلاتی ہے _ منزل کی جانب چلتے ہوئے, راستے کے خوشنما مناظر میں کھو کر رک جانے کا احساس بے چینی ہی تو ہے _ بے چینی دکھنے میں ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر ذرا محسوس کریں اس لفظ کے اندر کیا کیا نہیں رکھا؟ متزلزل شخصیت, منتشر سوچ, بکھری ہوئی بے ترتیب دھڑکنیں, بے ربط الفاظ, اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکون سے عاری وجود _ بے چینی ان سب کا مجموعہ اور مرکز ہوتی ہے _ بے چینی کا براہ راست تعلق روح سے ہوتا ہے اور روح ایک لافانی شے ہے _ لہٰذا ہر وہ شے جس میں فانی ہونے کا ذرہ برابر شک ہو جائے روح اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے مگر جسم اور دماغ لافانی کو چھوڑ کر فانی سے دلچسپی رکھا کرتے ہیں اور وہ روح کے برعکس چلنے کی کوشش کرتے ہیں. _ نتیجتاً روح پھڑپھڑانے لگتی ہے اور یہی پھڑپھڑاہٹ بے چینی بن جاتی ہے جو زندگی کے ہر لمحے آپ پر اثر انداز ہوتی ہے _ انسان جب قدرت کے فیصلوں کا انسانی معیار کے مطابق موازنہ کرنے لگے تو لاحاصل کی تڑپ جاگ اٹھتی ہے _ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں انسان بے بسی کی انتہا کو آن پہنچتا ہے اور یہی بے بسی ایسا احساس پیدا کرتی ہے جو بے چینی کہلاتی ہے _ بے چینی اگر طلب کی ہو اور طلب گر منزل حقیقی کی ہو تو پھر وہ بے چینی ایک نعمت بن کر آپ کے شب و روز روشن کر دیتی ہے _ اور اگر خدانخواستہ مطلوب اگر عارضی ہو تو وہی حاصل ایک وقت کے بعد انسان کی روح کو ایسے گھاؤ لگاتا ہے کہ جس کا مرحم وقت کے پاس بھی نہیں ہوتا اور انسان عمر بھر بے چینیوں کی اندھی گھاٹیوں میں بھٹکتا رہتا ہے _ خیال آوارہ