Bano Qudsia – Raja Gidh
تحریر ھارون نصیر
میری نظریں بہت دیر تک راہ رواں ، راجہ گدھ اور ماں جی کے ساتھ گزرے ھوے لمحات پر دوڑتی رہیں- ماں جی کو پڑھتا جاتا اور حسن خیال کو محسوس کرتا جاتا اُن کی حساسیت اور حسن خیال میرے ظرف سے بہت بڑے تھے- مجھ سے اُن کی شخصیت کی خوبصورتی کا احاطہ نہیں ھوا- پتا نہیں کیوں بیان کرنے کو دل بھی نہیں کیا-شائد خوشبو کو بیان نہیں کیا جا سکتا- پانچ فروری کو نماز جنازہ کے جب ھم قبرستان پہنچے تو قبرستان کے اندر داخلی دروازے کے بائیں جانب شائد پہلی قبر پر ماں جی کے ایک بہت قریبی افتخار افی صاحب ایسے بیٹھے تھے جیسے سب کچھ لُٹا کے بیٹھے ھوں – اُن کے قریب جا کر میں نے آہستہ سے کہا ،اللہ کا حکم ، اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے اور آپ کو صبر عطا فرمائے ، تو کہنے لگے” ھاں جی اللہ کا حکم ” اپنی سرخ آنکھوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے “دیکھو آنکھوں میں کوئی آنسو بھی نہیں ھے ماں جی نے منع کیا تھا آنسو بہانے سے”، قبرستان کے اندر دائیں جانب پھولوں والا بیٹھا تھا افی صاحب اُس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے” میں نے اُس پھولوں والے سے پوچھا ھے کہ تمہیں پتا ھے کہ کون فوت ھُوا ھے تو پھول بیچنے والا جواب دیتا ھے بھائی یہ تو نہیں پتا کہ کون فوت ھُوا لیکن “بندہ وڈا سی ” افی صاحب کہنے لگے کس طرح پتا چلا کہ “کوئی وڈا بندہ سی” تو پھول بیچنے والا کہنے لگا میرے سارے پھول بک گئے ھیں – قبرستان سے واپسی پر داستان سرائے پہنچے مین گیٹ سے اندر داخل ھوئے تو دائیں طرف لان میں لوگ کھانا کھا رہے تھے ھم اُلٹے پاؤں باہر پلٹے تو قُدوسی صاحب جو بانو آپا کے گھر کے فرد کی طرح ھیں باہر آئے اور کہنے لگے اندر آئیے باہر نہیں جانا ماں جی کا حکم ھے کوئی بھی کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جائے گا – میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ فوت ھونے کے بعد بھی اُن کی توجہ محسوس ھو رہی تھی – آنکھوں میں نمی کے ساتھ میں نے پلیٹ اُٹھائی اور پلیٹ میں کچھ ڈالنے لگا-جیسے ماں فوت ھونے سے پہلے آپ کے لئیے کھانا پکا دے اور آپ وہ کھانا اُس کے فوت ھونے کے بعد کھاؤ -ایک ایک نوالہ یاد بنتا گیا