Bano Qudsia – Spiritualism
تحریر: حیدر علی
روحانیت اور خود آگہی بانو قدسیہ کا پیغام ہے، ’’راجہ گدھ ‘‘ جیسے شہرہ آفاق ناول کی تخلیق کار بانو قدسیہ کے انتقال سے داستان سرائے سے موسوم ان کے گھر کا دوسرا دروازہ بھی بند ہو گیا۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا گھر ادب کا گہوارہ تھا۔ بانو قدسیہ کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع تھا۔ اخلاقی انسانی اقدار، میلانات کا ٹکراؤ اور ہجرتیں کے معاشروں پر اثرات کے پسندیدہ موضوع تھے۔ بانو آپا کا وقت اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب جیسی بڑی ہستیوں کے ساتھ گزرا اور ان بڑے ناموں کی موجودگی میں اپنا نام پیدا کرنا بذات خود بانو قدسیہ کی بڑی کامیابی تھی۔….. بانو قدسیہ نے آنے والی نسلوں اور زندگیوں پر اپنے لفظوں کے ذریعے دیرپا اثرات قائم کیے ہیں۔ بانو قدسیہ نے اپنے انداز میں اپنی تحریروں میں بڑے تواتر کے ساتھ جو پیغام دیا ہے وہ ہے روحانیت کا پیغام اور پھر خود آگہی کا پیغام۔ بانو کی کہانیاں، افسانے، ڈرامے ہر جگہ وہ اپنے قارئین کو، خاص طور پر خواتین کو اپنی ذات کی شناخت کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان کے زیادہ تر کردار شہری زندگیوں میں مختلف النوع پیچیدگیوں کا سامنے کرنے والی خواتین کے گرد گھومتے ہیں۔ ناول راجہ گدھ کے علاوہ حاصل گھاٹ، ہجرتوں کے درمیان، پھر اچانک یوں ہوا، حوا کے نام، کچھ اور نہیں، چہارچمن، سامان وجود، اک ہنس کا جوڑا، شہرلازوال۔آباد ویرانے، آتش زیرپا، پیا نام کا دیا ، توجہ کی طالب، لگن اپنی اپنی اورسدھراں جیسی تخلیقات بانو قدسیہ کے نام ہیں۔ گلیمر کی دنیا سے بہت پڑے رہی معروف مصنفہ ادیبہ باقی اعزاز سب ایک طرف لیکن وہ خود بہت بڑی انسان تھیں بہت پیار کرنے والی بہت لاجواب …. سوچتا ہوں ڈھلیں گے ، یہ اندھیرے کیسے لوگ رخصت ہوئے، اور لوگ بھی کیسے کیسے انا الله واليه راجعون…….