عقلِ کُل۔۔
محمد عاصم لطیف
عقلِ کُل۔۔یا بالکل۔آپ یہ دو الفاظ پڑھ کرمسکرایئے مَت بلکہ اپنے آپ کو اِس بات سے بَاور کروا لیجیئے کہ کچھ بِے تکے الفاظ کا جَھمگھٹا آپ کے گلے کا طوق بننےکو ہے۔ہمارے ہاں اِک بات کا سرِعام پَرچار کیا جاتا ہے کہ ” انسانی معا شرے کے اعتبار سے اگر انسان میں عقل تھوڑی ہو تو گزارا ہو جاتا ہےاور اگر ضرورت سے زیادہ ہوتو یقیناً وبالِ جان ہے،اپنے لیے دو گُنا اور معاشرے کیلئے آٹھ گُنا”۔خیرمیرا اِس عنوان پر بات کرنا شاید کچھ ایسا ہی ہے۔
؎ کسی سودائی کا قصہ ہے کسی ہرجائی کی بات
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا
عقلِ کُل کا عنصر بذات خود جذباتی ہیجان ہے کیونکہ اِس بارے میں باوثوق طور کُچھ کہہ جانا بہت کٹھن ہے تو پھرسفر سوچیں کس مشکلات سے پیوست ہوگا۔برصغیرکے انسان کو دوسرے کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی لَت باقی علاقوں کی نسبت بہت زیادہ نظرآتی ہے۔پَر اِک بات جو بہت متاثر کُن بات برصغیرکے اِنسان کی رہی ہے وہ یہ ہے کہ اِس نے عقل کو ٹٹولا اور پھر کہیں جاکر عمل کے میدان میں قدم رکھا اور یہی بہترین نتائج حاصل کرنا کا ذریعہ ہے۔وہ الگ شکل ہے کہ خاطر خواہ نتائج نہ حاصل کر سکا۔کسی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
؎اُسے معلوم تھا کہ میری کھوج میں نکلے گا
قطرہ قطرہ ذرہ ذرہ راہ میں بکھر گیا
ہراِنسانی عمل کی رونمائی اگر تُو قدرت کے رنگ کے مطابق وقوع پذیر ہونا شروع ہو جائے تُو آپ یقین کرلیں کہ آپ اِس دنیا کے ہزار ہا احکامات کی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ دلیل کے طور آپ بڑوں کا کہا ہی لے لیجئے کہ”اگر بولنا سیکھنا ہے تو پہلے پہل سننا سیکھیں”۔ اِس کی ایسی کیا وجوہات ہوں گی کہ بڑوں کو یوں کہنا پڑا۔ جہاں تک محسوس ہوتا یہ رویہ بچہ سے جانچا ہے۔وہ ایسے کہ ابھی بچہ عورت کے بَطن میں ہی ہوتا ہے کہ اُسے ایسی آوازیں محسوس اور سنائی دیتی ہیں جو گردشِ دوراں کا حصہ ہوتی ہیں- بچہ تڑپتا ہے اور اِن آوازوں کے درمیاں خود کو اِیک جسم سے جڑا محسوس کرتا ہے۔ پیدائش کے چنداں سال بعد کہیں اِجازت دی جاتی ہے،پَرمکمل طور پر نہیں،زبان لڑکھڑاتی ہے اور اپنے الفاظ کا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی۔ یہاں پر الفاظ کی ادائیگی کا منکر ہونا نہیں اورپَر ناں ہی خاموشی کو طوالت کی حالت میں دیکھنا بلکہ یہ عیاں کرنا ہے کہ خداوند کو دونوں فعل بہت پیارے ہیں پَر سننے کو فضیلت دی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ آسانی سے طے ہوتی ہے اور اَپنے اصل کے زیادہ قریب ہے۔ جبکہ بولنے کے فعل کو وقت دیا کہ تیرےساتھ نباہ کٹھن ہے اور ہمیشہ کٹھن آسان ہونے کےلیۓوقت درکار ہوتاہے۔اِک اور دلیل کے طور خداوند خود نشاندہی کرواتا ہے۔ “وھو السمیع بصیر” کہہ کے کہ “کوئی شۓاسکےمثلنہیں وہ سننے والا ہے اور دیکھنے والا ہے”۔
اب تو مجھے یوں لگتا ہے کہ خداوند آگاہ کرنا چاہتا ہے کہ میں نے بولنے نہیں دیا،دیکھنے نہیں دیا ،پہلے سننے کو فوقیت دی؛تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے تو شاید عقل پالو۔نہیں تو!جو حالات ہیں،سو ہیں، تمہارے اعمال کی بنا پر ہیں۔
؎ عقلِ کُل خود کو سمجھتا ہے ہر جن و بشر
بالکل دیکھتا ہے اپنی ہی سوچوں کا حشر
درجات کا تعین ہے اپنے ہی پیمانے سے
ستم تو یہ ہے کہ اس پہ بھی کرتا ہے فخر