حقیقت کا پرچار – تحریر علیس احمد
علیس احمد
انسان زندگی کے ہر لحمے میں سیکھتا ہے، جو سکیھتا نہیں وقت اسے ہمیشہ زیر رکھتا ہے، اور دنیا میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ زیر رہے, سب کی خواہش اور کوشش زبر رہنے کی ہوتی ہے، مگر یہ آپ کے رویے، اخلاق اور عمل پر منحصر ہے، اپنے اندر مثبت تبدیلیاں مسلسل کرتے رہیں اور اپنی سوچ کو وسعت دیں ہر ڈگری اور زاویہ کی بات برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، آپ اچھے سب اچھا کے جملہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو یقیناً آپ ایک بنا سٹریس کے بنا کامیاب زندگی جی سکتے ہیں، حاصل مقصد زندگی کو جینا سیکھیں گزر تو یہ خود بھی جانی ہے، اللّٰہ تعالیٰ سے اپنا ربط رکھیں ہو سکے تو اسکو مضبوط کرتے جائیں تاکہ آپکا شمار شاکر اور ذاکروں میں ہو، تا کہ آپ کے اندر انسانيت زندہ رہے، دنیا کی بقا انسانیت میں ہے، انسانیت سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے، جہاں رہی آب بیتی کی بات تو کوئی بھی انسان اپنی آب بیتی مکمل لکھ ہی نہیں سکتا، وہ چند چیدہ چیدہ واقعات کو چاہے وہ اسکے بیتے وقت کی سنہری یادیں، یا تلخ واقعات ہوں ان کو شیئر کرتا ہے، میں بھی کچھ الفاظ اپنی زندگی پر آپ کی نظر کرنا چاہتا ہوں
مجھے اپنے پیدائش کے بارے اتنا ہی علم ہے کہ میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے دیہات میں پیدا ہوا، اور اپنی زندگی کی 26 بہاریں مکمل دیکھ چکا ہوں، میرا بچپن شرارتوں بھرا ، لاڈلا سا تھا، 6 بہنوں کا پیار اور ماں باپ کا سایہ پہلے دن سے ابھی تک میسر ہے الحمد اللہ ، میری زندگی بھی سانس چلنے کی لکیر جیسی، حالات کا مقابلہ کرتے دنیا کو سمجھتے، حقیقت کی تلاش میں گزری، میں ہمیشہ سے ایک محنتی اور لائق بچہ جو سکول، کالج، یونیورسٹی حتیٰ کہ کھیلوں کے میدان بھی نمایاں حیثیت، رکھتا ہو. ، میرا والد ایک چھوٹا سا کسان اور ان پڑھ تھا اور فیملی بڑی تھی پھر بھی والدین نے اچھے پرائیوٹ سکول، کالج سے ایجوکیشن دلائی،گویہ؛ انکو اتنا بھی علم نہ ہوتا کہ میرے سبجیکٹَس کیااور کلاس میں پوزیشن یا مارکس کیا، جیسے کوئی کلاس ختم ہوتی میں انکو خود آگاہ کرتا اور اگلے مرحلے کے سارے فیصلے بھی میرے ذمہ ہوتے، اور انسان کی زندگی ایسے استاد کی اہمیت کچھ اور بڑھ کر ہوتی ہے جو تعلیم سے بڑھ کر آپ میں حوصلہ، ہمت اور آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار رکھے، ایسا ہی معزز استاد میری زندگی میں کلاس ششم سے ہشتم تک میسر تھا، جس کی اعلیٰ کوششوں کی چھاپ مجھ میں آج بھی نظر آتی ہے، بچپن سے آج تک مجھے اپنے گاوں کی مٹی، اسکی نیچر سے محبت ہے، میں آج بھی فارغ وقت دور اکیلی سڑکوں پر چلتے نیچر کو محسوس کرتے گزارتا ہوں، علم سے انسان سوچ بدلتی ہے، انسان میں شعور پروان چڑھتا ہے. اور شعور ہی تقویٰ کی بنیاد ہے، مگر ایسا شعور جو آپکو اپنی مٹی اور اپنی بنیاد کو بھلا کر مصنوعی چیزوں کی طرف راغب کر دے میں آج بھی اس سے پناہ مانگتا ہوں، ہماری فیملی میں ہم. سب کے رول ماڈل میرے حقیقی چچا تھے جنہوں نے پیروں میں جوتے نہ ہونے اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر، سکول کالج کی فیسسز پروفیسرز، اساتذہ سے لیکر ادا کی اور Phd برلن یونیورسٹی سے کی اور جی سی یونیورسٹی لاہور میں میتھ کے پروفیسر کی حیثیت سے اپنی زندگی کے 18 سال صرف کیے، پھر ایک لاہور کی مشہور یونیورسٹی میں 8 سال پڑھایا، آج بھی لاہور میں شاندار زندگی گزار رہے ہیں، مگر جب سے گاوں سے لاہور گے اپنے گاؤں اور اپنے لوگوں کو مکمل بھول گے، سالوں بعد کبھی غمی یا خوشی پر چکر لگانا، لوگ شروع میں انکو اپنا رول ماڈل کہتے مگر ان کا رویہ دیکھ کر اب انکا ذکر کرنے سے بھی عاری ہیں، الحمد اللہ ہمارے گاوں کا لٹریسی ریٹ 95 فصد اور گورنمنٹ کی جاب تقریباً 88 فی صد لوگوں کو میسر ہے، پوری تحصیل اور ضلع میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے، 1994 میں ماڈل ولیج کا درجہ بھی حاصل کر چکا ہے،
میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ ہاسٹل لائف میں گزارا چاہے وہ حصولِ علم ہو یا حصولِ روزگار کے لیے ہو _، 15 سال کی عمر سے میری زندگی کے حیرت انگیز سفر شروع ہوگے جنہوں نے گزرتے وقت کے ساتھ اپنا اثر نمودار کیا، مجھے ان سفروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، میری فطرت شروع سے ہی الگ رہنے اور چیزوں کو بغور مشاہدہ کرنے کی ہے، لوگوں کی زندگیوں سے اپنے لیے سبق ڈھونڈنا، اور ہر حال میں مثبت، اور بھائی چارے کی بات کرنا،، انسان کی زندگی بہت سے ایسے موڑ آتے جو کچھ نہ کچھ اسکی سیرت، صورت، اور مستقبل پر اپنا اثر رکھتے ہیں، میرا 2013 سے 2015 تک لاہور کاسفر اور لاہور میں ہی 2 سال قیام میری زندگی کا ایسا دور تھا جب زندگی کو بہت قریب سے دیکھا، زندگی جینے اور گزارنے کے فرق کو جانا، جب محبت اور عشق کو جانا، جب انسان کے تخلیق کے مقصد کو پہچانا، جب اشرف المخلوقات کے فلسفے کی تلاش کی، جب زندگی کی مشکلات کو محسوس کیا، جب دشتِ تنہائی کا لقب ملا، خود سے خدا کے تعلق کا ادراک ہوا، لاہور میری پرائیویٹ کمپنی میں جاب تھی جو ان دنوں میٹرو بس کے پراجکٹ پر کام کررہی تھی، مگر میرے اندر مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق مجھے رات سونے نہیں دیتا تھا، اگرچہ میری تنخواہ کافی اچھی اور پوسٹ بھی گزرتے وقت اور تجربے کی وجہ سے بہتر ہوری تھی مگر مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے مجھے کوئی وقت میسر نہ تھا اور گھر کے حالات میری یونیورسٹی کی تعلیم برداشت نہیں کر سکتے تھے، اگرچہ مجھے گھر والوں نے کبھی بھی جاب کرنے کا نہیں کہا، میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑتا کہ کیسے تم گھر والوں پر بوجھ بن سکتے، بہنوں کی شادیوں کا بوجھ پہلے والدین پر اور اوپر سے میرے تعلیمی اخراجات، یہ سوچ مجھے مسلسل کھٹکھٹاتی کہ جاب کرنا چاہیے، آپ کو اپنی مزید تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرنے چاہیے، اسی سلسلے میں مجھے لاہور جانا پڑا، مگر وہاں تعلیم کے لیے جاب کے ساتھ وقت میسر نہ تھا… میں نے اسکا حل تلاش کرنے کی کوششوں میں لگ گیا اور خدا سے دعا کی مجھے ایسا روزگار عطا کریں جس ے میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں، کچھ دن بعد ہی مجھے NTS کی ویب سائٹ پر پاکستان کے ایک مشہور ادارے کی جابز کا اشتہار نظر آیا میں نے ایلائی کیا اور پورے ضلع میں 121 سیٹوں میں مجھے 22 نمبر پر ٹیسٹ کے بعد انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا، خدا کا شکر کیا گورنمنٹ کے ادارے میں جاب مل گی ساتھ ہی محکمہ سے مزید تعلیم کے لیے درخواست دی جو منظور ہوئی اور 2016 میں نے اپنی دوبارہ تعلیم پاکستان کی ایک نامور یونیورسٹی سے weekend کلاسسز میں شروع کردی. اور انشاءاللہ انجنئیرنگ میں اپنے ملک کا ایک نام روشن کرنا مقصد ہے، انجنئیرنگ کے سیکٹر میں ایمانداری سے اپنا کاروبار کرنا اور ویلفیئر کا ادارہ بنانا کیونکہ میرا یقین ہے کہ کھانے پینے اور سونے کی ضروریات پوری کرنے سے اضافی رقم، سہولیات جو ہمیں میسر وہ اصل میں ہمارا امتحان ہے، وہ ہم پر ضرورت مندوں تک پہنچانے کا قرض ہے، ویلفیئر کا بہت بڑا خواب ہے اور اگر زندگی ہے تو اسکی تکمیل ممکن ہے ، حسب توفیق آج بھی ویلفیئر کے کاموں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں چاہے، 2 آنے کا ہو یا10 آنے کا،
آج تک خدا کی ذات سے جو بھی مانگا دیر سے یا جلدی وہ مل گیا، میری زندگی میں سوشل میڈیا کی بہت اہمیت رہی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور سوشل میڈیا کاہمیشہ سے مثبت استعمال کیا ہے، فالورز کو امید دلانا، زندگی کا اصل مقصد بتانے کی کوشش کرنا، انسان کی لاشعوری محبت کی وجہ سے ٹوٹے دلوں کو اللّٰہ سے جوڑنے کی کوشش کرنا، کیونکہ ہم سب کا پہلا اور آخری سہارا اللّٰہ ہی اور ہماری محبتوں اور عشق کا محور اور مرکز بھی اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے،عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا، جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتا ہے۔اور میرے نظریہ میں عشقِ حقیقی ہی بارگاہِ ربّ العالمین میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
اس دوران میں سوشل میڈیا پر بھی کافی ایکٹو تھا، میرا ایک اکاؤنٹ میرے نام سے تھا جسکو بعدازاں دشتِ تنہائی کے نام سے منسوب کیا اور اپنے تجربات اور خیالات اور مشاہدات اور اپنی سوچوں کو اپنے الفاظ کو فیسبک پر میں اپنے اکاؤنٹ پر لکھنے کی کوشش کرتا،اور ایسے ہی مجھے ادب سے بھی ایک خاص لگاؤ ہوا ، پڑھنے اور لکھنے کا شوق بڑھتا گیا ، کچھ ہی دن بعد مجھے ایک دوست نے پیج کا مشورہ دیا میں ان دنوں اپنی ایک شارٹ سٹوری یا ناولٹ کے انداز میں حاصلِ زیست کے نام سے کہانی لکھ رہا تھا، ، اس کہانی لکھنے کی وجہ سے( ناول نگار) کے نام سے پیج بنایا جو آج 10K فالورز تک پہنچ چکا ہے، بہت سے بہترین لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے مجھے ملے جو آج بھی الحمداللہ میرے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہر خوشی وغمی میں یاد رکھتے ہیں اگر سب کے نام لکھوں تو یہ کہانی بہت لمبی ہوجائے، مگر میں اپنی بہن ڈاکٹر حفصہ کا ذکر لازمی کرنا چاہوں گا جس کا میری زندگی میں شامل ہونا ایک نعمت سے کم نہیں، اور دوسرا پیج قدرے بعد میں مگر میرا سب سے معیوب پیج عشق حقیقی کے پرچار کے لیے معرفتِ الہیْ کے نام سے پیج بنایا، وقت کے گزرے کے ساتھ سوشل دائرہ کار مزید وسیع ہوگیا، اور بڑھتا جارہا ہے، الحمدللہ آج جاب اور تعلیم ساتھ ساتھ جاری ہے اور ڈگری آخری مراحل میں ہے اور ساتھ سوشل لائف کو بھی مناسب وقت دیتا ہوں اپنے مشغلہ قدرتی مناظر کی فوٹو گرافی کو بھی وقت دیتا ہوں، اگر وقت میسر ہو جہاں تک ہو سکے تو ٹریولنگ بھی کرتا ہوں ، کہانی لکھنے کا مطلب، کہ انسان کا سب بڑا استاد انسان کا گزرا وقت ہوتا ہے، جو اپنے اس استاد کو بھول جاتا اسکو آنے والے وقت میں اکثر مسائل کا سامنا رہتا ہے، اور جس کے اندر انسانيت نہیں نہ تو وہ انسان ہے میرے مطابق نہ ہی مذہب دنیا سے اسکا کوئی تعلق چاہے پی ایچ ڈی سکالر ہو یا کوئی کورا چٹا ان پڑھ، اور جہاں اخلاق نہیں وہاں برکت اور احساس کوچ کر جاتا ہے،،، اور آج اس مشکل وقت میں کرونا کی وبا سے جنگ کے دوران بھی ہمیں مستحقین کو نہیں بھولنا چاہیے. اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں کے مددگار رہیں، یہ ہی اللّٰہ کی سب سے پسندیدہ صفات میں سے سب سے اعلیٰ صفت ہے، بندہ خوش اللّٰہ خوش، رب کو اپنے اندر تلاش کریں، جسکو اپنے اندر رب نہ ملا اسکو مکہ اور مدینہ جانے سے بھی رب نہیں ملا کرتا، اللّٰہ اپنے بندے سے عشق کرتا ہے مگر ہم کو اسکو جان ہی نہیں پاتے یا دیر سے سمجھتے ہیں،
جہاں رہے خوش رہیں
تین جملوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں..
U Good All Good
Do Good Have Good
Live Must Die.