حیات از قلم عظمیٰ خرم
#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_15
#حیات
پارٹ 15
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کے بھائیوں کی بلند اور غصیلی آوازوں نے اس کا استقبال کیا ۔”گل سن بےبے تو ازل سے یہی چاہتی تھی کہ تیرا احد سلطان وڈا افسر بنے ،اسی لئے تو نے اسے پڑھایا لکھایا ہمیشہ اسے دل اور جان سے قریب رکھا ہم تو تھے ہی سوتیلے ،جیسے ہی باپ مرا تو نے ہمیں کسی بوجھ کی مانند اتار پھینکا پر اسے کلیجے سے الگ نہ کیا ،تیری روح بستی ہے اس میں ۔تو ہمیشہ سے اسی کی تھی ۔تو ہماری کمائی پر اسے عیش کروانا چاہتی تھی پر جب ہم تیرے جھانسے میں نہیں آے تو تو نے ہمیں بد دعائیں دیں ہماری اولاد کھا گئی تو اور ۔۔”
اس سے زیادہ سننا احد کے لئے نا قابل برداشت تھا الفاظ تھے یا سیسہ جو کسی نے پگهلا کر اس کے کانوں میں ڈال دیا تھا ۔احد کے اندر آتے ہی زاہد کی انگارے برساتی زبان کو روک لگ گئی ۔”بس !خبردار اس سے آگے ایک لفظ نہیں ۔کچھ شرم کچھ غیرت ہے آپ لوگوں میں یا نہیں ارے کبھی تو حشمت ڈوگر کی اولاد ہونے کا ثبوت دیں ۔بولتے وقت کبھی تو سوچ لیا کریں کہ کس باپ کی اولاد ہیں اور کس کے آگے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں ۔یہی ماں ہے جس نے اپنی جوانی قربان کر دی ہم لوگوں پر ۔سارا سارا دن لوگوں کی گندی ،ہوس زدہ ،ترسی نگاہوں سے چھلنی ہو کر ان کا کچرا پٹی صاف کرتی رہی صرف ہمیں حلال لقمہ کھلانے کے لئے ۔اور آج آپ انہی کی طرف انگلی کھڑی کر کے سوال کر رہے ہیں ؟سوال تو آپ سے بنتا ہے بھائی آپ نے اپنے گھر میں اپنی سگی ماں کو ماسی بنا کے رکھا ۔اپنی بیویوں سے ان کی عزت کروانا تو دور کی بات الٹا اپنی ماں کو ان کی غلامی میں دے دیا ۔ایسی بھی کیا زن مريدی کہ ۔۔۔”
احد کی گرج دار آواز گھر کے در و دیوار سے ٹکرائی،ایسا آئینہ دکھانے کی جرات کرنے پر زاہد نے آگے بڑھ کے احد کو تھپڑ مارنا چاہا پر اس کا تيزی سے اٹھا ہاتھ ہوا میں ہی جکڑا رہ گیا اور اس مضبوط پکڑ نے اس کی،” مد مقابل”، کے بارے میں ساری غلط فہمی دور کر دی۔
“بس !بھائی بس !اب اور نہیں ،آپ شائد بھول رہے ہیں کہ اب میں وہ چھوٹا سا کمزور بچہ نہیں ہوں جسے جب آپ خود مار مار کر تھک جاتے تھے تو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیتے تھے ۔اس پر بھی جی نہ بھرتا تو میری کتابیں چھپا دی جاتیں اور مجھے ماسٹر صاحب سے پٹوایا جاتا ۔میری جيب خرچی آپ چھین لیتے میرے کھانے میں کبھی نمک تو کبھی پانی ڈال دیتے ۔سردیوں کی کتنی ہی راتیں میں نے گیلے بستر پر جاگ کر کاٹی ہیں صرف آپ کی مہربانی سے زاہد بھائی ۔ہے کوئی حساب اس ،”محبت “،کا ؟جو آپ دونوں نے مجھ سے کی ؟میں آج تک خاموش رہا کیوں کہ میں اپنی ماں کو دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا پر اگر آج آپ کھاتہ کھول ہی بیٹھے ہیں تو بتایں ،جواب دیں “۔
یہ سب سننا تھا کہ بے آواز روتی ہوئی بختاور کے آنسوؤں کو زبان مل گئی وہ دل پر ہاتھ رکھے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔آخر وہ کیوں نہ سمجھ سکی کہ اس کے سب خدشے درست تھے وہ صرف اس کا “یوسف”، نہیں تھا اپنے بھائیوں کے لئے بھی ایک ،”خار “تھا ۔
زاہد اور حامد کو بلکل بھی یہ امید نہیں تھی کہ احد کبھی ایسے بھی گرج برس سکتا ہے ،ہاں بھئی سچ ہے ،”عہدے”،بولتے ہیں ۔
زاہد یہ سب سن کے بھی بے شرمی سے سرو کی طرح اکڑا کھڑا تھا اسے بلکل امید نہیں تھی کہ احد کی یاداشت میں وہ سب باتیں اب بھی تازہ ہوں گی.
پر حامد کافی شرمسار لگ رہا تھا اس کی نگاہوں کا رخ مسلسل زمین کی طرف تھا ۔
غصے میں منہ سے كف اڑاتے زاہد نے پلڑا بھاری دیکھ کر ایک بار پھر توپوں کا رخ اپنی ماں کی طرف کیا ،”ہاں ہاں میں نے کیا ہے یہ سب کچھ ،پر اس نفرت کی وجہ بھی بےبے تو ہے صرف تو ۔اور میں یہاں اس صاحب بہادر کی تقریر سننے نہیں آیا ہوں میں یہاں صرف تجھ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ اس دن جب میں نے تجھے گڈی پر بٹھایا تھا تو تو لہور کیوں نہیں پہنچی ؟اس چوہدری وجاہت کے پنڈ کیوں چلی گئی ؟کیا لگتا تھا وہ تیرا ؟سارے جہان میں بدنامی کرائی تو نے ہماری ،میں اور آسیہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ۔”
بختاور کے چہرے پر حیرانی اور شرمندگی کے رنگ تھے ۔اس کی سگی اولاد اس سے ایسے ننگے سوال بھی کر سکتی ہے کبھی ؟یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا اس نے خشک ہوتے کپکپاتے ہونٹوں پر زبان پهيری اور کچھ کہنا چاہا پر زبان نے ساتھ چھوڑ دیا پر بے زبان آنسوؤں نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا ۔احد کا دل ماں کی بیچارگی اور بھائی کی بے غیرتی پر کٹ کے رہ گیا ۔
“تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے کوئی بات کی جائے ،تم جیسا لعنتی انسان شائد ہی کہیں ہو اس روے زمین پر جو اپنی ماں کے کردار کو تولنے آیا ہے ۔جھوٹے ہو تم۔ تم نے بےبے کو ريل گاڑی پر بٹھانا تو دور اسے ٹکٹ تک خرید کر نہیں دیا تھا ۔اور کس محلے داری کی بات کرتے ہو تم ؟اس دن تمہارے گھر سے نکلتے ہی مجھے محلے داروں نے میری ماں کی کسمپرسی کی داستان سنا ڈالی تھی۔اب تم چاروں کی بھلائی اسی میں ہے کہ فورا سے پہلے یہاں سے نکل جاؤ ،دفع دور ہو جاؤ ۔اور اگر آج کے بعد تم میں سے کوئی میری ماں کے آس پاس بھی نظر آیا نا تو سیدھا 302 میں اندر کروں گا تم لوگوں کو ۔نکلو فورا میرے گھر سے ۔تم جیسے بھائیوں سے تو میں اکیلا ہی بھلا ۔جو سگی ماں کا نہ بن سکے وہ کسی کا کیا بنیں گے”۔
حامد فورا گڑبڑا کے اٹھا اور بنا کچھ کہے اپنی بیوی نشو کے ساتھ باہر نکل گیا ۔زاہد کی بیوی نے بھی معامله ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر زاہد کا بازو تھاما اور اسے باہر کی طرف گھسیٹنے لگی ۔”ہاں ہاں !رکھ تو ماں کو ۔ماں تو بیٹا یہ تیری ہی ہے صرف یا اس شازی کی ہمیں تو جانے کس کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر لائی ہو گی ۔جب ذرا جذبات سے باہر آؤ تو پوچھنا اپنی پیاری بےبے سے تمہیں فون نہیں کیا پر اس وجاہت کو فون کر کے بلوا لیا ہو گا سٹیشن پر کہ آؤ دیکھو میرے بیٹے کتنے ظالم ہیں”؟۔ احد زاہد کا منہ توڑنے کے لئے آگے بڑھا پر اس سے پہلے ہی اس کی بیوی آڑے آ گئی اور دونوں تيزی سے دہلیز لانگ گئے ۔ احد نے لب بھنچتے ہوے ماتھے کو ہاتھ سے مسلا ،اس کے بھائی کو رتی برابر اندازہ نہیں تھا کہ احد کی نفرت میں وہ کیا اناپ شناپ بولے جا رہا تھا ۔
احد نے آگے بڑھ کے زار قطار روتی ماں کو اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں لے لیا ۔صدمے اور دکھ سے اس کے بہتے آنسو ماں کے بالوں میں جزب ہو گئے ۔
“ہاے میرا بچہ!میرا سلطان!تو نے کیوں نا بتایا مجھے آج تک کہ وہاں تیرے ساتھ یہ لوگ ایسا سلوک کرتے رہے? ” آج تو احد کے بھی سارے زخم ہرے ہو گئے تھے کس کس غم کا ماتم کرتا اپنے روتے بلکتے بچپن کا یا ماں کی تارتار ہوتی عزت کا.
بختاور کی رو رو کر آواز بیٹھ گئی تھی.
پر رفو گر تھا وہ اسے ہی رفو کرنا تھا.
جس دن سے اس کے بھائی گھر میں ہنگامہ مچا کر گئے تھے بختاور کی صحت بہت گر گئی تھی ۔وہ ہر وقت کسی صدمے کے زیر اثر گم سم رہتی ۔
ماں کو اس صدمے سے نکالنے کے لئے اس نے یہ تركيب لڑائی کہ بےبے کو اپنی شادی کے لئے رضا مندی دے دی ۔بختاور ،ملک صاحب کی بیٹی ،”شریں” کو بہت عرصے سے جانتی تھی پھر ایک دو سال وہ ان کے سرونٹ کواٹر میں بھی رہ کر آئی تھی ۔
شریں ایک سلجھی ہوئی ،پڑھی لکھی ماڈرن زمانے کی دلدادہ زندہ دل لڑکی تھی اپنے لئے احد کی بے چین محبت سے خوب واقف تھی. بظاہر ایسا کوئی عیب نہیں تھا کہ اس رشتے سے منہ موڑا جاتا ۔پھر ملک صاحب کے احسانات اور لڑکے لڑکی کی پسند ہاں کا پلڑا بھاری تھا اس لیے منگنی کی رسم کی تیاری شروع ہو گئی ۔
بختاور نے دل کے سب ارمان نکالے اور سمدھیانے کے طبقاتی اور معاشرتی درجے کے عین مطابق دھوم دھام سے منگنی کی گئی ۔بختاور تو نکاح کے حق میں تھی پر شریں کے بی اے کے امتحانات کی وجہ سے شادی کو فلحال ٹالنا مناسب سمجھا گیا ۔
احد کی مصروفیت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی تھی وہ اکثر شریں سے کہتا کہ وہ جب بھی فارغ ہو تھوڑی دیر کے لئے ماں کے پاس چلی جایا کرے ۔پر اکثر یہی بہانہ کہ اس کے پاس وقت ہی نہیں کہیں آنے جانے کا ۔احد اتنا بھی بچہ نہیں تھا کہ سمجھ نہ سکتا ۔
اس کی خواہش تھی کہ جیسے اسے اس کی قابلیت کی بنا پر برابری کی سطح پر قبول کیا گیا ہے اس کی ماں کو بھی قبول کیا جائے پر شریں اور ملک صاحب نے صرف “اے ایس پی “احد سلطان کو قبول کیا تھا بختاور کو نہیں ۔ان کو احد کا اپنے بھائیوں سے اختلاف بھی اسی لیے برا لگا تھا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ شادی کے بعد بختاور اپنے بڑے بیٹوں کے پاس کراچی رہے گی اور شریں کے لئے انہیں احد سے دور کرنا آسان ہو جائے گا پر حالیہ لڑائی نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پهير دیا تھا ۔بلکہ سچ تو یہ تھا کہ شریں کی پڑھائی کا شوشہ بھی اسی لیے چھوڑا گیا تھا کیوں کہ اس کی یہ شرط تھی کہ بختاور جب تک اس گھر میں ہے وہ دلہن بن کے وہاں نہیں جائے گی ۔اس کی سہیلیاں تو پہلے ہی اسے چھیڑتی تھیں کہ “دیکھ لو اب ایک کام والی ماسی تمہاری ساس بن کے تم پر حکم چلاے گی۔” اور اسی لیے اس نے بختاور کو اپنی انا کا مسلہ بنا لیا تھا ۔
ایک دن احد گھر آیا تو دیکھا ماسی نوراں آئی بیٹھی ہے اور دونوں سہیلیاں دکھ سکھ میں مصروف ہیں ۔”تو جانتی ہے نوراں میں حشمت اللّه کے مقابلے میں بہت کم عمر تھی پر اس زمانے میں یہ عام بات تھی ،سر کا سائیں تھا جیسا بھی تھا سر تاج تھا پر میرے دل کی كسك سواے میرے رب کے کبھی کوئی نہ جان سکا ۔حشمت ڈوگر کی پہلی اور آخری محبت اس کی پہلی بیوی ہی تھی میں خود کو اس کی پسند کے سانچے میں ڈھال ڈھال کر تھک گئی،
چور چور ہو گئی پر اس کے دل میں ویسے نہ ،”کبھ “سکی جیسے صغی کی ماں مرنے کے بعد بھی ،”کبهی “،تھی ۔”اپنے دھیان ہاتھوں سے ٹٹول کے ساگ توڑتے بے نور آنکھوں سے دور دیکھتے وہ مسکرائی ،”پر میں بھی نا کیسی کرم جلی ہوں وہ غریب جنتی بندا تھا ،مجبور تھا ،مجھ سے اس کا دل نہ ملا کبھی ۔مجھے اس نے بیوی کا ،سنگی ساتھی کا درجہ نہ دیا کبھی ہمیشہ مجھے،” نیانی”،سمجھا پر یقین کر نوراں میں نے بڑی دوڑ لگائی ،بڑی کوشش کی کہ اس کے ساتھ چل سکوں پر نا میرے چھوٹے چھوٹے قدم اس کے وڈے وڈے، بڑی کوشش کی کہ ویسی ،”سيانی “،بن جاؤں کہ وہ مجھے وہ درجہ دے پر نا ،بختاور تے ٹھنڈی آہ بھری،”ساری حیاتی لنگ گئی اور جب لگا کہ ہاں اب تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے ہم دونوں میں تو وہ نا مراد دنیا ہی چھوڑ گیا ۔دیکھ لے ہر قدم مجھ سے آگے ہی رہا کبھی ساتھ نہیں چلنے دیا اس نے “۔ نوراں نے درد بھری مسکراہٹ سے بختو کو دیکھا “جهلی تھی تو اور اب بھی جهلی ہی ہے ۔یہ مرد ہمیں ایسا ہی سمجھتے ہیں “۔ بختو کے ساگ توڑتے ہاتھ ایک دم رک گئے ،”تجھے پتا ہے نوری !میں جب بھی کبھی ہسپتال میں کسی ہم عمر میاں بیوی کو دیکھتی تو یہی سوچتی کاش میں حشمت کو پہلے ملی ہوتی تو ہماری زندگی کتنی مختلف ہوتی ،خیر اب تو لنگ گئی جیسی بھی تھی اچھی تھی بس ایک ہی ارمان ہے رب سوہنا حج کروا دے مجھے پر پھر سوچتی ہوں میں نابينا سو بکھیڑے کیسے کروں گی حج ؟”
احد نے اپنی بھولی ماں کی باتیں آنکھوں میں نمی لئے حیرانی سے سنی ،اس کا درد اپنے دل میں محسوس کیا ۔
احد کو سرکاری کام سے کچھ دن کے لئے کراچی جانا تھا لہٰذا وہ نوری کو بختاور کے پاس رہنے کا کہہ گیا ۔
کراچی سے کام ختم کر کے جانے کیا دل میں سمائی اس نے وجاہت کے گاؤں جانے کا فیصلہ کیا ۔وہاں کے لوکل پولیس افسر نے پورے پروٹوکول میں اسے چوہدری حسن افتخار کی حویلی پہنچایا ،وجاہت نے اس کا شاندار استقبال کیا ۔وہاں حسن سے پتا چلا کہ ماموں وجاہت اور حسن حج کی ادائیگی کے لئے جا رہے ہیں۔ احد کا بھی دل کیا کہ کاش اس کو بھی چھٹی مل سکتی تو وہ بھی ماں کو لے کر جاتا اور اس کی سب سے بڑی خواہش پوری کر سکتا ۔اپنی ماں کا اب وہ اکلوتا محرم تھا ۔
حسن کی احد سے اچھی دوستی ہو چکی تھی وہ جب بھی لاہور جاتا احد سے ضرور ملتا ۔
جاری ہے…….. جاری ہے…….
از قلم ،”عظمیٰ خرم “