حیات از قلم عظمیٰ خرم
#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_18
پارٹ 18
دکھ کے ان لمحات میں ،”وائی زيڈ”،وہ ہستی تھی جسے مل کر اسے اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس ہوتا تھا ۔کہنے کو اس کے بہت سے دوست تھے پر کبھی کسی دوست کے ساتھ اس نے اتنی آسانی کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔عام طور پر اٹھارہ سال کی لڑکیاں بہت جذباتی اور صرف اپنے بارے میں سوچنے والی ہوتیں ہیں پر وہ الگ تھی سب کا درد رکھنے والی ،احساس کرنے والی،بدلے میں بغیر کسی اچھائی کی توقع کرنے والی ۔احد کو جگہ جگہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا بلکل کوئی شوق نہیں تھا ،وہ تو اندر کا دکھ چھپا کے مسکرانے والا انسان تھا پر جانے اس لڑکی میں ایسا کیا تھا جو نا چاہتے بھی وہ اپنا دل اس کے آگے کھول کر رکھ دیتا ۔ اسے لگتا تھا کہ وہ جو کچھ بھی یمنہ کو بتاتا ہے یمنہ کو پوری طرح سمجھ نہیں آتی تھی،کیوں کہ اس کی ساری بات کے دوران وہ صرف ٹکٹکی لگا کے اسے دیکھا کرتی پر کبھی کچھ نہیں کہتی –
یمنہ ضمیر احد سلطان کے لئے وہ کنواں تھی جس میں وہ کتنا بھی زور سے چلاتا وہ اس کی آواز اس کے دکھ کو ضم کر لیتا -زندگی میں بہت بار ہمیں ایسے اندھے کنویں چاہیے ہوتے ہیں جن میں ہم اپنے اندر کا دکھ،تکلیف اتار پھینکیں،جو ہمیں یہ نہ بتایں کہ ہم نے کب کہاں کیا غلط کیا کیا نہیں یا ہمیں کب کہاں کیا کرنا ہے،،بس وہ چپ چاپ سن لے بنا ہمیں یا ہمارے اعمال کو تولے -یمنہ ایسی ہی تھی شائد اس سے بھی بڑھ کے اس کے چاروں طرف سکون کا ہالہ تھا اور دن بدن صرف وہی کیا اس کی ماں بھی اسی کی دیوانی ہوتی جا رہی تھی ۔
یمنہ ضمیر کی کشش اپنی جگہ پھر بھی اسے بےبے کی اس بات سے اختلاف تھا کہ اسے یمنہ کو شیریں کی جگہ دینی چاہیے – “بھولی بےبے کبھی نہیں سمجھ سکتی کہ ہر انسان کی اپنی جگہ اپنا مقام ہوتا ہے کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا اور یمنہ…………! نہیں نہیں….کتنی چھوٹی ہے وہ” –
اس نے سوچا یہ جانے بغیر کہ آنے والا وقت اس کے لئے کیا لانے والا ہے.
اسے وائی زيڈ کی سب سے انوکھی بات یہ لگتی کہ جو دل میں ہوتا کہہ دیتی وہ اکثر خیالوں میں اپنا اس سے موازنہ کرتا کہ وہ مرد ہو کر اتنا بے باک نہیں تھا بہت جھجک تھی اس میں ۔
اس دن وہ کالی شلوار قمیض میں ملبوس اپنے دفتری امور نمٹانے میں مصروف تھا جب وہ احسن کے ساتھ اس کے دفتر آ گئی ۔”چلیں جناب آج شام کی چاے اور رات کا کھانا آپ ہمارے ساتھ کھایں گے جلدی سے وائنڈ اپ کر لیں پلیز “۔
احد نے مسکرا کے اسے دیکھا ہمیشہ کی طرح دونوں بھائی بہن ایک جیسے جينز اور شرٹ میں ملبوس تھے ۔یہی وجہ تھی کہ اکثر لوگ انہیں پہلی نظر میں جڑواں بھائی سمجھتے تھے ۔”کیوں بھئی آج یہ عنایت کس خوشی میں؟کسی کی سالگرہ ہے کیا ؟” یمنہ مسکرا کے بولی ،”نہیں تو سالگرہ تو نہیں ،بس ایسے ہی آپ کی یاد آ رہی تھی تو سوچا خود جا کر آپ کو لے آیں”۔ “اچھا چلو میں تھوڑا سا کام کر لوں پھر نکلتے ہیں “۔اس نے یمنہ کے جواب کی معصومیت مسکرا کے قبول کی –
“ہاں نا……..!نو ایشو !میں یہی انتظار کروں گی “۔ فائلیں دیکھتے دیکھتے اکثر احد کو محسوس ہوتا کہ وہ بڑے غور سے اسے دیکھ رہی ہے ،نظریں ملنے پر وہ تو مسکرا کر دوبارہ فائل پر جھک جاتا جب کہ وہ انہی شرارت بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہتی ۔
“آپ کو پتا ہے آج آپ بہت حسین لگ رہے ہیں ،ویری گريس فل ،آئی لوو دی وے یو ڈریس اپ،رئیلی….!یہ بلیک كلر آپ کو بہت سوٹ کیا ہے “۔ایک الہڑ حسینہ سے اپنی ایسی تعریف سن کر اسے لگا اس کے کان لال ہو گئے ہیں ،جیسے بچپن میں جب بےبے اس کی تعریف کرتی تھی تو وہ شرم سے ادھ موا ہو جاتا تھا ۔ابھی وہ مسکرا کے اس تعریف کو ہضم بھی نہ کر پایا تھا کہ وہ چہک کر بولی ،”او احسن !لک ایٹ ہم ،ہی از بلشنگ “۔ (دیکھو انہیں یہ تو شرما رہے ہیں )اور وہ اور حسن دونوں اس کے ایسے جھینپنے پر ہنسنے لگے۔
شیریں کی منگنی کا دعوت نامہ اور پھر مٹھائی گھر آ چکی تھی. ماں کے بتانے پر احد نے چہرہ بالکل بے تاثر رکھا جیسے اسے کوئی فرق نہ پڑا ہو. پر اس کی بےبے کی بے چینی سوا نیزے پر تھی -شائد ساری مایں ایسی ہی جذباتی ہوتی ہیں –
ماں کے حد سے بڑھتے اصرار پر اس نے ضمیر صاحب سے پہلے یمنہ سے بات کرنی ضروری سمجھی ۔اس نے یمنہ کو کہا کہ وہ آج شام کو واک پر اکٹھے چلیں گے ۔یمنہ اس کے دیے گئے وقت سے پہلے ہی ٹریک پر اس کا انتظار کر رہی تھی ۔اسے آتا دیکھ کر وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے دیکھ کر مسکرانے لگی ۔”اے ایس “,سر !او سر شکر ہے آپ آ گئے خدارا رحم کریں ہم پر ،مجھے ٹریک سوٹ میں بلوا لیا واک کا کہہ کر اور خود پھر وہی بلیک شلوار قمیض پہن کر ظلم ڈھانے آ گئے ہیں “۔
اس کے اس طرز مخاطب پر ابھی وہ سنبھلا نہ تھا کہ یمنہ کی جانب سے دوسرا اٹیک آ گیا –
اس نے اس وقت کو کوسا جب اس نے ٹریک سوٹ نہ پہننے کا فیصلہ کیا تھا ،کہیں دل کے نہاں خانے میں اسے بھی پتا تھا کہ وہ اسے ان کپڑوں میں پسند کرتی ہے ۔
“نہیں نہیں دراصل بس دیر ہو گئی نکلتے نکلتے…… تو…… بس…..سیدھا آفس سے ادھر آ گیا لباس تبدیل کرنے کا موقع نہیں ملا “۔ وائی زیڈ نے گہری مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا اور بولی ،”ارے آپ تو پریشان ہی ہو گئے جناب !ویسے آپ اس ڈریس میں اتنے اچھے لگتے ہیں کہ کاش میں آپ کو مال روڈ کے اسی اشارے پر پروپوز کر سکتی جہاں آپ نے مجھے لڑکا سمجھتے ہوے میری گاڑی ضبط کروائی تھی ۔ویسے آج مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ واک صرف بہانہ ہے ۔آپ کو کچھ اور کہنا ہے مجھ سے “۔
اس کے اتنا جلدی بوجھ لینے کا اسے اندازہ نہیں تھا اسی لیے گڑبڑا سا گیا ،”ہاں….. وہ میں…….کہنا چاہتا تھا……….بلکہ……. نہیں پوچھنا……چاہتا تھا کہ وہ……اصل میں اماں تمہیں بہت پسند کرنے لگی ہیں تو ۔۔۔۔کیا میں اماں کو ضمیر صاحب کے پاس بھیجوں ؟ مطلب اگر تم کہوں گی تو……! مطلب ایسا نہیں ہے کہ اماں چاہتی ہیں صرف…….. میرا بھی اچھا خیال ہے تمہارے بارے میں “
اف خدایا!!!! کیا بول رہا ہوں میں?
وائی زيڈ نے مسکراتے ہوے گہری نم نظروں سے اسے دیکھا ،اور پھر وہ ہنسنے لگی اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جانے غم کے یا خوشی کے ،آنسو متواتر بہنے لگے تو وہ رونے لگی اور منہ دوسری طرف کر لیا ،کچھ قدم چلی پھر واپس آئی اور اس صورتحال سے حیران پریشان کھڑے احد کی طرف دیکھا اور iاس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی ،”میں بھی آپ کو بہت پسند کرتی ہوں پر کاش آپ مجھے پہلے ملے ہوتے اور تب مجھے یہ سوال پوچھتے تو میں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترين لڑکی سمجھتی”
اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا وہ اسے اس کے سوالوں کے درمیان اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ۔
” ہنہ ! میں ہی پاگل ہو جو کسی سے بھی امیدیں وابستہ کر لیتا ہوں ۔اسے لگتا ہو گا میں ایک مڈل کلاس عجمی اس اعلی ذات کی عربی النسل کے کہاں قابل ہو سکتا ہوں،یا ہو سکتا ہے وہ کسی اور کو پسند کرتی ہو،میں نے بھی تو سیدھا سیدھا رشتہ بھیجنے کا پوچھ لیا پہلے اس سے تو پوچھ لیتا کہ کہیں اس کی زندگی میں کوئی اور تو نہیں،پر وہ بتا بھی تو سکتی تھی “۔
اور بھی نہ جانے کیا کیا سوچتے خود کو بات بے بات کوستے دو تین روز گزر گئے،پر ایسا لگتا تھا اس پر صدیاں گزر گئی ہیں -نا کھانے کا ہوش نا پینے کا ۔فائلیں دیکھتے دیکھتے اسے وائی زیڈ کا چہرہ نظر آنے لگتا اور اپنی توہین کے احساس سے اس کی آنکھیں اور کان جلنے لگتے ،اس سے تو شریں ہی اچھی تھی جو بھی تھا منہ پر کہہ کر گئی تھی ۔
انہی سوچوں میں گم اس نے گھر کے گیٹ پر تیز ہارن دیا ۔گیٹ کھلتے ہی انجانے غصے اور غائب دماغی سے گاڑی کھڑی کی -پر گاڑی سے اترتے اس نے دیکھا اف میرے اللّه !یہ کیا ہو گیا ہے مجھے میں……. میں…..یہاں کیسے پہنچ گیا ۔وہ وائی زيڈ کے گھر کے اندر کھڑا تھا ۔اور اس کا چوکیدار پاس کھڑا حیرت سے منہ تک رہا تھا -اب کیا کرنا چاہیے اسے واپس چلا جائے یا رکے ؟نہیں نہیں رکنا ٹھیک نہیں ہو گا اس کی آنکھوں کی سرخی اور ستا ہوا چہرہ اس کے اندر کا حال چیخ چیخ کر بیان کر رہے تھے ۔
وہ فورا دوبارہ گاڑی کی طرف آیا پر دیر ہو چکی تھی –
اس کے اس طرح تیز ہارن دینے کی وجہ سے احسن بھاگ کر باہر آیا تھا۔
“احد بھائی ! آپ ؟آر یو فائن ؟اتنی رات کو? ایسے اچانک, سب ٹھیک ہے نا…”
احسن بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تھا ۔اور وہ تو جیسے پہلے سے کسی سہارے کا ہی منتظر تھا ،اپنا سارا بوجھ احسن کے گلے لگ کر اتار دینا چاہتا تھا جیسے ۔آوازیں سن کر ضمیر صاحب باہر آے تو سامنے کا منظر دیکھ کر انہیں یقین نہ آیا۔احد ا حسن کے گلے لگا بلک بلک کر رو رہا تھا ۔بڑی مشکل وہ اسے اندر لے کر آے ۔ڈرائنگ روم میں گہری خاموشی تھی۔احد دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کئے،ہونٹ بھنچے،شدید پشیمانی سے نم آنکھوں سے کمرے کے دبیز قالین کو گھور رہا تھا ۔ضمیر صاحب اور احسن پریشانی سے اسے دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں وہ کیا بولتا ہے ۔
آخر کار احسن کے پکارنے پر اس نے چونک کر احسن کو دیکھا جو اسے پانی کا گلاس پیش کر رہا تھا ا حسن کو دیکھ کر اسے پھر سے وائی زيڈ یاد آئی ۔
تبھی وہ ایک دم جانے کو اٹھ کھڑا ہوا ،”معاف کیجیے گا سر میں…….. میں….. بس غلطی سے آ گیا تھا، مجھے جانا چاہیے “۔
“مانا کہ سب غلطی سے شروع ہوا تھا پر کیا ختم بھی غلطی سے ہی کریں گے “۔ وائی زيڈ کی آواز نے اس کے باہر کی طرف بڑھتے قدم زنجير کئے تھے اس نے مڑ کر زخمی نظروں سے اسے دیکھا ۔”
احد کی ذہنی حالت کے پیش نظر احسن اسے گھر چھوڑنے آیا تھا -وہ گھر آیا تو پہلے سے زیادہ بکھرا ہوا تھا ۔اس نے شکر کیا کہ اس کی ماں دیکھ نہیں سکتی ورنہ اپنے لاڈلے کی یہ حالت دیکھ کر اس کا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ۔
“وائی ذیڈ !تم اپنے بال اور لڑکیوں کی طرح لمبے کیوں نہیں کرتیں ؟” اس نے کھانا کھاتے اس سے سوال کیا پر وہ یمنہ ہی کیا جو ہر سوال کا سیدھا جواب دے دے “اوہو تو جناب کو لمبے بالوں والی لڑکیاں پسند ہیں ؟”یمنہ نے شرارت سے مسکراتے ہوے اس کا سوال اسی کی جانب لوٹا دیا ۔”نہیں یہاں میری بات تو نہیں ہو رہی بس ایسے ہی دل میں آیا تو پوچھ لیا کیوں کہ میں نے آج تک لڑکیوں کو اپنے بالوں سے بہت محبت کرتے دیکھا ہے کبھی کسی ایسی لڑکی سے میرا واسطہ نہیں پڑا جو اپنے بھائی جیسا نظر آنے کے لئے اپنے بالوں کی قربانی ہی دے دے “۔احد نے وضاحت دی ۔”ہممم صحیح کہہ رہے ہیں آپ ،محبت تو مجھے بھی تھی “۔ یہ کہتے ہوے اس کے لہجے کی حسرت صاف محسوس کی جا سکتی تھی ۔احد اس وقت یہ بات نہ سمجھ پایا جو آج اسے ضمیر صاحب نے بتائی تھی ۔
آج سے ٹھیک تین سال پہلے یمنہ کو سٹیج ون کا كينسر تشخیص ہوا تھا ۔علاج کی غرض سے ضمیر صاحب اسے لے کر لندن شفٹ ہو گئے ۔علاج شروع ہوا تو یمنہ کے تین فٹ لمبے کالے سیاہ بال تیزی سے گرنے لگے ۔ڈاکٹرز نے انہیں کاٹنے کا کہا تو یمنہ بلک بلک کر رو دی یہ بال ہی تو تھے جو اس کی ماں سے اسے مشابہت میں قریب کرتے تھے ۔
جو بھی اسے دیکھتا تو کہتا یہ تو ياسمين کی بیٹی ہے ۔پھر نا جانے کیا ہوا اگلے دن صبح نرس کمرے میں آئی تو دیکھا اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بال کاٹ ڈالے تھے سارا غسل خانہ بالوں سے بھرا تھا ۔احسن نے پوچھا کہ پہلے تو تم نے اتنا واويلا مچایا اور پھر خود سے سارے بال کاٹ دیے کیوں ؟ یمنہ بولی ،”بس میں نے سوچا جب یہ کام ہونا ہی ہے جلد یا بدير تو اب کیوں نہیں اور میرے ہی ہاتھوں کیوں نہیں ؟ایسے ہی جب کوئی مر جاتا ہے تو ہم کتنا بھی غم منا لیں آخر کار ہمیں اسے دفنانا تو پڑتا ہی ہے پھر اچھا نہیں کہ ہم جلدی جلدی نمٹا لیں اس کام کو اور موو آن کر کے دیکھیں کہ وٹس نیکسٹ ناؤ؟ جتنی دیر ہم وہاں کھڑے رہیں گے اس لمحے میں قيد رہیں گے تکلیف میں رہیں گے ۔تمہیں پتا ہے احسن !مجھے مما بابا کی زندگی کا وہ لمحہ بہت یاد آیا جب مما جانا چاہتی تھیں اور ہم سب انہیں روکنا چاہتے تھے ۔کتنا تکلیف ده تھا وہ سب روز روز کی چپقلش ،اذیت ناک خاموشی پھر سے بحث ،پھر سے لڑائی اور جب وہ فیز گزر گیا تو کتنا سکون آ گیا نا ۔بس وہی سب سوچ کے میں نے یہ قدم اٹھا لیا اور دیکھو میں سکون میں ہوں “۔
احسن بہن کو گلے لگا کر زار و قطار رو رہا تھا اور دروازے کے پار محمد ضمیر اپنی چھوٹی سی بیٹی کی بڑی آزمائیش پر جس نے زندگی کا وہ فلسفہ دو دن میں سمجھ لیا تھا جسے سمجھنے میں لوگوں کی ایک جنم کی زندگی بھی کم پڑ جاتی ہے ۔
دو سال کے لمبے پر کامیاب علاج کے بعد وہ واپس پاکستان آ گئے اور یمنہ نے زندگی دوبارہ سے جینا شروع کر دی ۔پر ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اسے شادی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ وہ کبھی ماں کے رتبے پر فائز نہیں ہو سکے گی ۔کیوں کہ کسی بھی قسم کی ہارمونال تبدیلیاں اس کی زندگی کا دورانیہ نہ صرف مشکل بلکہ مختصر بھی کر سکتی ہیں۔اسی لیے یمنہ کا فیصلہ تھا کہ وہ کبھی بھی احد کو کسی آزمائیش میں نہیں ڈال سکتی جس کے لئے پہلے ہی زندگی کبھی آسان نہیں رہی ۔اور ضمیر صاحب کا بھی یہی خیال تھا کہ کسی بھی قسم کا جذباتی قدم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں،پر یمنہ کو جب سے احد کی خود کے لئے پسندیدگی کا کھل کر پتا چلا تھا وہ شدید کرب میں تھی -اپنے پسندیدہ انسان کو اپنے ہاتھوں سے جانے دینے کا دکھ وہ پہلے بھی سہہ چکی تھی –
پر اب فیصلہ احد کو کرنا تھا ۔اس کا دل فیصلہ دے چکا تھا پر دماغ چپ تھا ۔
آج وہ پھر تہجد کے وقت اکیلا اسی مزار پر آ گیا ۔وہاں آج بھی ویسا ہی سکون تھا ۔اس نے دو رکعت نماز کی نیت باندھی اور سورہٴ الضحی کی تلاوت شروع کی تلاوت کرتے کرتے اس کی ہچکی بندھ گئی ۔آنسوؤں کا طوفان تھا جو سب بند توڑ کے بہہ جانا چاہتا تھا ۔آخر پھر سکوت چھا گیا ۔فجر کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھاے تو دل اطمینان سے لبریز تھا ۔دماغ نے بھی دل کے حق میں دلیل دے ڈالی،تکلیف ده طویل لمحوں میں سسک سسک کر زندگی گزارنے کی بجاے کیوں نہ سکھ کے خوشی کے لمحے چن لئے جایں ۔یہ بھی تو ہو سکتا تھا وہ جس لڑکی سے بھی شادی کرتا وہ بعد میں کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو جاتی تو کیا وہ اسے چھوڑ دیتا ؟تو پھر ایسے ہے تو پھر ایسے ہی سہی ۔
یمنہ ضمیر تمہیں کھو دینا ایسا خسارہ ہے جو میری پوری زندگی پر حاوی ہو سکتا ہے اور تمہیں پا لینا میری زندگی کی پہلی خوشی ہو گا آگے جو میرے رب کی رضا ۔
یتیم خانہ والوں نے اپنے ہونہار طالب علم ،”احد سلطان”،کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی تھی جس میں شہر کے معززین بھی شامل تھے ۔احد نے اپنی طرف سے یمنہ ،احسن اور ضمیر صاحب کو بھی دعوت نامہ بھجوایا ۔
یمنہ احد سلطان کی طرف سے بھجواے گئے سادہ سے کالے رنگ کے انار کلی فراک میں ملبوس تھی جب کہ اس کے قدم با قدم چلتا احد سلطان وہی کالی شلوار قمیض زيب تن کئے ہوے تھا جس کے ساتھ یمنہ کی مسکراہٹ جڑی تھی ۔
جاری ہے …….. جاری ہے…….
ریاضتیں بھی قبول ہوں ضروری تو نہیں
ہر لگاؤ میرا عشق ہو ضروری تو نہیں
میرے ہر مرض کی دوا یوں تو ہے میسر
پر دوا سے شفا یاب ہوں ضروری تو نہیں
وہ پاس ہو کر بھی پاس نہیں ہوتا اکثر
رگ جاں محبت عین ہو ضروری تو نہیں
از قلم “عظمیٰ خرم “