لکھ یار
حیات از قلم ” عظمیٰ خرم “
- #پری_اپرووڈ
- #حیات_پارٹ_12
- # حیات
- پارٹ 12
- احد نے بے حد جوش و خروش سے فوج میں بھرتی کا امتحان دیا تھا پر اللّه کو یہ منظور نہیں تھا ۔امتحان میں ناکامی کا دکھ ایک بار پھر اس کی مستقبل کی ساری خوش گمانیوں کو گھسیٹ کر خوف کے اندھے کنویں میں لے گیا ۔
- پھر بھی بختارو نے اس کی ہمت بندھائی اور احد نے مزيد پڑھائی کے ساتھ ساتھ مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی ۔
- ملک صاحب نے ایسے میں احد کی ہر ممکن مدد کی ۔
- بختاور جب بھی نوراں کے پاس بیٹھتی نوراں اپنے بیٹے عظیم اللّه کے گن گانے لگتی ،”ہاے بختو! کیا بتاؤں تجھے میرا سوہنا پتر جب چند تارے والی وردی پہنتا ہے تو اس پر سے قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔” نوراں کا بیٹا فوج میں ،”کیپٹن “،تھا پورے محلے میں اس کی ٹور کے چرچے زبان زد عام تھے ،پہلے پہل بختاور عظیم اللّه کے ذکر پر ہمہ تن گوش ہو جاتی تھی وہ خیالوں ہی خیالوں میں اس کی وردی پر ہاتھ پھیرتے اپنے احد سلطان کو محسوس کیا کرتی تھی ،اس خاکی وردی کے تارے اسے اپنے اپنے لگتے تھے پر جب اس کا اپنا بیٹا ناکام ہو گیا تو اس کا دل غصے اور حسد سے بھر گیا وہی تارے اسے پراے لگنے لگے ۔ایسے میں ایک دن جب وہ ہانڈی روٹی کرنے میں مصروف تھی تو احد ہانپتا ہوا آیا اور بولا ،”بےبے !بےبے !تجھے پتا ہے عظیم اللّه کو ،”گرنیڈ”،لگ گیا !” اتنا سننا تھا کہ بختاور نے غصے سے جلتی لکڑی مزيد چولہے کے اندر جھونکی اور بولی ،”تو کیا کروں میں لگ گیا تو ؟بھاڑ میں جایں میری بلا سے جب میرے بیٹے کو نہیں لگا تو مجھے کیا پرواہ ،جب دیکھو شوخی ہوئی پھرتی ہے آج میرے بیٹے کو یہ لگ گیا آج میرے بیٹے کو وہ مل گیا”۔
- احد کو ایک لمحے میں ساری صورتحال سمجھ آ گئی کہ اس کی بھولی ماں ،”گرنیڈ” کو کیا سمجھ رہی ہے ۔
- اللّه نے عظیم اللّه کو دوسری زندگی عطاء کی تھی ۔جنگ میں دشمن کا گرنیڈ لگنے سے وہ شدید زخمی ہو گیا تھا ۔
- بختاور کی نظر دن بدن مزید کمی کا شکار تھی ۔احد نے اس کی نوکری بھی چھڑوا دی تھی اور بےبے کو لے کر ملک صاحب کی کوٹھی سے متصل سرونٹ کواٹر میں چلا گیا تھا ۔
- حامد کراچی سے لاہور آیا تو دیکھ کے حیران رہ گیا کہ یہاں حالات کیا سے کیا ہو چکے تھے ۔
- حامد نے بتایا کہ زاہد کا بیٹا ٹانگوں کی کمزوری کی پیدائشی بیماری کا شکار ہے ۔اور زاہد اور اس کی بیوی اسے جگہ جگہ علاج کے لئے لے کر جاتے ہیں پر کوئی افاقہ نہیں ۔اولاد کے اس دکھ نے زاہد کے کاروبار پر بے حد اثر ڈالا تھا ۔دونوں میاں بیوی بچے سميت عمرہ تک کر آے تھے پر نہ تو کوئی دعا اثر کی نہ دوا ۔یہ ساری روداد سن کے بختاور کا دل دکھی ہو گیا اس نے سوچا کیا تھا اگر اللّه سوہنا اس کے بیٹے کے دل میں یہ خیال ڈال دیتا کہ وہ ماں کو ساتھ عمرے پر لے جاتا ۔نہ جانے کب اس کی آنکھوں کا نور چھو منتر ہو جائے کم از کم وقت رہتے وہ اللّه سوہنے اور پیارے رسول پاک ﷺ کا روضۂ تو دیکھ لیتی ۔
- حامد نے احد کو سمجھایا کہ وہ ماں کو اس کے ساتھ بھیج دے تا کہ وہ کراچی کے بڑے ہسپتال میں ماں کی آنکھوں کا علاج کروا سکے ۔پچھلے تجربے کو دیکھتے ہوے احد ماں کو کراچی بھیجنے کے بلکل حق میں نہیں تھا پر آنکھوں کے علاج کا سن کے اس نے فیصلہ ماں پر چھوڑ دیا ۔بختارو تو پہلے ہی تیار بیٹھی تھی جو بھی تھا نا فرمان ہی سہی ، پر تھا تو اس کا بیٹا ،اور اسے اس وقت اس کی ضرورت تھی ۔
- کراچی پہنچ کر بختاور کو پتا چلا کہ اس کی دونوں بہويں امید سے ہیں اور دونوں کو ایک کل وقتی ملازمہ کی اشد ضرورت تھی اور بختاور کی صورت وہ انہیں مل گئی تھی ۔
- بختاور نے چند دن میں ہی اپنی اس نئی حیثیت کو دل سے قبول کر لیا کہ چلو کیا فرق پڑتا ہے ۔اور پھر بقول اس کے بیٹوں کے کہ بےبے ساری عمر تو نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے ؟لوگوں کی چاکری اگر کی تو اپنے یوسف ثانی احد کے لئے کی ،ہمارے لئے نہیں کی ۔
- بس تو طے رہا اب کے چاکری اولاد کی خاطر یا اولاد کی اولاد کی خاطر سہی ۔
- بختاور کے آتے ہی دونوں بہوؤں نے چین کا سانس لیا ۔بختاور صبح سویرے اٹھ کے ناشتہ پانی کرتی ،ان کے بچوں کو سنبھالتی ،کھانا بناتی،کپڑے دھوتی سارے گھر کی صفائی کرتی اور رات کو تھک کر چور ہو جہاں جگہ ملتی سو جاتی ۔زاہد کی بیوی تو اس پر بھی بس نہ کرتی اور رات کو بھی اپنا اپاہج بچہ بختاور کے حوالے کر دیتی اور خود چین کی نیند سوتی اور دن چڑھے اٹھتی ۔
- پر کسی سے کیا گلہ ،جب اپنا سکہ ہی کھوٹا ہو تو ۔
- تین مہینے میں احد پانچ بار خط لکھ چکا تھا پر زاہد یا حامد نے ماں کو بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ مبادا کہیں احد کی محبت کے جوش میں مفت کی نوکرانی ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔زاہد نے احد کو تسلی دی کہ بےبے کا علاج چل رہا ہے اور اس میں وقفہ نہیں آنا چاہیے اس لیے جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی اسے واپس نہیں بھیج سکتے ۔بختاور اکثر زاہد اور حامد کی منت کرتی کہ وہ احد کو خط لکھ کے اس کی خیریت کی اطلاع پوچھ لیں ۔پر وہ بڑی بے نیازی سے اسے یقین دلاتے کہ وہ یقینا بڑا خوش اور آزاد ہو گا ورنہ وہ خود نہ خط لکھ کے اس کی خیریت کا پوچھتا ۔
- جو بھی تھا بختاور کو ان کی باتوں کا یقین نہیں آتا تھا وہ جانتی تھی اس کا احد ایسا نہیں ہے ۔
- احد اسی آس میں خوش ہو رہا کہ چلو اس کی ماں کی بینائی ٹھیک ہو جائے گی ۔اور یہاں ویسے بھی اس کے امتحان کا نتیجہ آ چکا تھا اور اس نے اپنے لئے پولیس لائن کو منتخب کیا تھا کیوں کہ اس کی ماں کو ،”وردی “،سے بہت محبت تھی پھر کیا فرق پڑتا تھا کہ وہ ایک فوجی کی نہیں ایک فرض شناس پولیس والے کی ہو ۔احد کو فوری طور پر ٹریننگ اکیڈمی جانا تھا ۔ایسے میں یہی بہتر تھا کہ ماں بھائیوں کے پاس رہتی ۔اور ٹریننگ سے واپس آتے ہی وہ بےبے کو اپنے پاس لے آتا ۔یہ وقت بہت صبر کا تھا جو وہ بڑی خاموشی سے گزارنا چاہتا تھا ۔اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی وہ اپنی ماں کے ساتھ بھر پور طریقے سے منانا چاہتا تھا ۔
- زاہد اور حامد دونوں کی بیویوں نے دو ہفتے کے وقفے سے بچوں کو جنم دیا پر زاہد کا بیٹا پیدا ہوتے ہی دم توڑ گیا ۔ڈاکٹرز پریشان تھے کہ بظاھر کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں تھی بچہ بلکل صحت مند پیدا ہوا تھا ،پھر بھی وہ زندگی کی بازی لڑے بنا ہی ہار گیا ۔
- دو ہفتے بعد اللّه نے حامد کو بھی بیٹے سے نوازا ۔پر وہم کے مارے دونوں میاں بیوی پاگلوں کی طرح سارا دن ساری رات بچے کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہتے ۔جب تک بچہ جاگتا رہتا ان کی جان میں جان رہتی جیسے ہی بچہ سو جاتا تو ہر دو منٹ بعد دونوں میاں بیوی اس کی سانسیں ٹٹولتے ،دھڑکنیں سنتے اور خود کو یقین دلاتے کہ ہاں ان کا بچہ زندہ ہے ۔
- دوسری جانب زاہد اور اس کی بیوی کی مارے غم کے حالت ديدنی تھی ،”کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس کی ساری کمائی لٹ گئی ہو ۔”،کی تفسير بنے بیٹھے تھے ۔دونوں کی حالت ہارے ہوے جواری جیسی تھی جس کے پاس اب ہارنے کو کچھ نہ بچا ہو ۔
- زاہد کی بیوی اکثر اوقات بیٹھے بیٹھے بڑبڑانے لگ جاتی ،کبھی روتی کبھی ہنستی کبھی اپنے اپاہج بیٹے کو خود سے چمٹا لیتی کبھی دور پهينك دیتی ۔حد تو یہ ہوئی کہ ایک رات چوری سے جب نشو نیند سے اونگھ رہی تھی زاہد کی بیوی آسیہ حامد کا بچہ اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئی ۔اپنے بچے کے رونے کی آواز سے نشو اور حامد ہڑبڑا کے نیند سے جاگے اور اپنے بچے کی تلاش میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگے ،تبھی نشو کو ادراک ہوا کہ آواز تو آسیہ کے کمرے سے آ رہی ہے وہ ننگے پير بھاگی پر آسیہ کی بچے پر پکڑ اس قدر سخت تھی کہ نشو کے لاکھ جھٹپٹانے پر بھی اس نے بچے کو اسے نہ دیا
- ۔بچے پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے چاروں آپس میں بھوکے شیروں کی طرح لڑ رہے تھے ،اس قدر چیخ و پکار کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے ۔بختاور بھی یہ منظر دیکھ کر چکرا گئی ۔نشو نے اپنا بچہ واپس پانے کے لئے غصے میں آسیہ کے بال نوچ ڈالے پر مسلہ یہ تھا کہ آسیہ اسے اپنا بچہ کہہ رہی تھی اور کسی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی ۔دونوں بھائی بھی بیویوں کی لڑائی میں آپس میں دست و گریبان تھے۔
- صبح ہوتے ہی نشو نے اپنا سامان سمیٹا اور اپنے کسی رشتے کے بھائی کے ہاں چلی گئی ۔
- بختاور نے بڑی مشکل سے دودھ هلدی بنائی اور بہو کے لئے لے کر گئی کہ رات کے مار کھاے زخموں کو ٹکور کر سکے ۔پر آسیہ تو نا جانے کس جنون میں تھی اس نے گرم گرم دودھ کا پيتل کا گلاس بختاور کے پاوں پر دے مارا اور بختاور کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے لگی اس کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان تھا جو سب بند توڑ چکا تھا
- ،”تو کرم جلی !تو منحوس مائی !پہلے تو آئی تو میرا بیٹا اپاہج ہو گیا اور اب کے تو تو میرا بچہ ہی کھا گئی ڈائین کہیں کی ۔کون سی منحوس گھڑی تھی جب تجھ سبز قدمی نے میرے گھر قدم ڈالے تھے ۔ہاے برباد کر دیا مجھے “،زاہد نے فورا آ کے بیچ بچاؤ کروایا ورنہ آج آسیہ نے اسے جان سے مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔بختاور کی درد سے لبریز چیخیں گھر کے در و دیوار کو دہلا رہی تھیں ۔جانے کون سی تکلیف زیادہ تھی گرم دودھ سے پاؤں کی جلد ادھڑنے کی یا سر سے بہتے خون کی جس کی پتلی سی لكير اس کے بالوں میں جزب ہونے کے بعد اب اس کی گردن پر بہہ رہی تھی یا شائد اس زخم کی جو دل پر لگا تھا ؟بیٹا مسلسل بپھری ہوئی بیوی کو سنبھالنے میں لگا ہوا تھا یہاں کون تھا جو بختاور کا مرہم بنتا ؟
- جاری ہے……. جاری ہے……
- از قلم ،”عظمیٰ خرم “