سوچو اور لکھو
جزا و سزا۔۔
بقلم : محمد سمیع اللہ
میرا ماننا ہے کہ انسان کی فطرت دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ ارادہ خیر اور دوسرا ارادہ شر اور ان دونوں قوتوں میں تصادم جاری رہتا ہے اور دونوں کی کشمکش بڑھتی رہتی ہے اگر انسان کے اندر ارادہ شر کی قوتیں غالب آجائیں تو انسان اسفل السافلین کے انجام تک جاپہنچا اور اگر اس میں ارادہ خیر کی قوتیں فائق و برتر اور غالب آجائیں تو ہر انسان، انسان مرتضیٰ بن جاتا ہے اور لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم مستحق اور مصداق ٹھہراتا ہے اور افضلیت خلق کا تاج اس کے سر پر سجایا جاتا ہے۔
اسلام انسان کے اندر نیکی اور خیر کی قوتوں کو فروغ دینے کے لیے ایک ترغیب اور ایک تحریک پیدا کرتا ہے جبکہ برائی و شر سے متنفر کرتا ہے، گناہ و خطا سے دور لے جاتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے کنارہ کش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام گناہ اور خطا سے نفرت کرتا ہے مگر خطا کار اور گناہگار سے نفرت نہیں کرتا۔
ظلم و استحصال سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے مگر مظلوم سے اظہار ہمدردی کا حکم دیتا ہے۔ ظالم و حاکم کے نظام ظلم سے نفرت کرتا ہے مگر محکوم رعایا کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی کی کاوشوں کی حمایت کرتا ہے۔ جابر و ستم گر کے ظلم کو روکنے کی ترغیب دیتا ہے مگر مجبور و مقہور کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تعلیم دیتا ہے۔ جرم سے نفرت کی صدا بلند کرتا ہے مگر مجرم سے اظہار ہمدردی اور خیر خواہی کی نصیحت کرتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ اللہ کا فیض ایک ہی سطح کا نازل ہوتا ہے لیکن انسانی ظرف ایک دوسرے سے مختلف ہوتے جس کا جتنا ظرف اسے اتنا نواز دیا جاتا ہے وہ اتنے ہی فیصلے کی سکت رکھتا ہے اتنا ہی عدل و انصاف کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔
جہاں تک بات ہے جزا و سزا کی تو قدرتی سی بات ہے کہ ہر عمل کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اور بظاہر ایک جیسے اعمال خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں اسی طرح ہر گناہ کی بھی اپنی خصوصیات ہیں اور یہ افراد اور متعلقات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں اور اللہ تعالٰی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور افضل پیمانوں کے ساتھ جزا دیتا ہے۔