کاغذ کا گھوڑا
”کاغذ کا گھوڑا“ ایک ایسا سچ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ عکسی مفتی خود افسر شاہی کا حصہ رہے ہیں اس لئے انہوں نے افسر شاہی یا نوکر شاہی کے کرداروں پر دل کھول کر تنقید کرتے ہوئے ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“ والے محاورے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ہر کام کاغذی کارروائی تک محدود ہو کر رہ جاتاہے‘ جبکہ اس پر سنجیدگی سے کوئی عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ عکسی مفتی صاحب نے کاغذی کارروائی پر اکتفا کرنے والوں کے طریقہ کار کو ”کاغذی گھوڑا“ قرار دیکر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی سماجی یا ثقافتی کام کی ترقی کیلئے کوئی ادارہ بنایا جاتا ہے تو وہ حوصلہ افزائی یا ترقی کے بجائے نہ صرف اس کام میں رکاوٹ کا سبب بنتاہے بلکہ قومی خزانے پر بوجھ بھی بن جاتا ہے۔ کتاب میں برطانوی دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ” نوکر شاہی کی تشکیل برطانوی سامراج کے دوران غیرملکی حکمرانوں نے اپنے مقصد کیلئے کی تھی‘ وہ اس کاغذ کے گھوڑے کو آہنی شکنجہ سمجھتے تھے جس کا مطلب عوام کی خدمت یا مقامی کلچر کی ترویج نہیں بلکہ حاکم وقت کی عظمت اور عوام کی تدلیل مقصد اعلیٰ تھی۔ افسوس کہ پاکستان بننے کے بعد نوکر شاہی کی تشکیل نو نہیں کی گئی‘ انہیں آزاد ملک کا نیا فلسفہ نہیں سکھایا گیا اور نہ ہی انکی سوچ میں تبدیلی آئی۔ وہ آج بھی حاکم وقت کے حکم کے منہ سے نکلی بات کو صحیفہ آسمانی سمجھتے ہیں۔