کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : سحرش حنیف
انقلابی کتاب
صاحبو! قرآن ایک انقلابی کتاب ہے۔
جب بھی انقلابی تھی جب چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ چودہ سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی انقلابی ہے قرآن نے انقلاب کا ایک طوفان برپا کر دیا۔ تخریبی نہیں، تعمیری طوفان۔ ذہنوں میں ۔ سوچوں کا طوفان، دلوں میں جذبات کا طوفان۔
جب قرآن نازل ہوا تو اہلِ یورپ
ابھی رہنا سیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ابھی سوچ سمجھ کر دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا۔
یورپی ممالک میں سے ایک ملک تھا، یونان جہاں غور و فکر کے چشمے پھوٹے تھے۔ وہاں بڑے بڑے صاحب فکر پیدا ہوئے تھے۔ ارسطو تھا، افلاطون تھا، بطلیموس تھا۔
لیکن یونان کے مفکر سب فلسفی تھے۔ سوچوں کے شیدائی تھے، خواب دیکھنے کے متوالے۔ اپنے اپنے خوابوں میں مگن، اپنے اپنے نظریات کے دیوانے۔ ان کے نظریات کے اثرات دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔
قرآن نے آ کر کہا، بس میاں بس ! بہت خواب دیکھ لیے۔ نظریات کے جُھن جُھنے بہت جُھنجُھنا لیے۔ سوچوں کی آوارگی چھوڑو۔ اب خواب مت دیکھو، آنکھیں کھولو، حقائق کو دیکھو۔ ہم نے تمہارے چاروں طرف حقائق کی بھیڑ لگا رکھی ہے کہ تم دیکھو، سوچو، سمجھو۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھنا، بھولنا نہیں کہ ہر چیز پر ہماری مہر لگی ہوئی ہے۔ ہر سبز پتے کے پیچھے ہم چھپے بیٹھے ہیں۔ ہر ذرے میں ہمارا پر تو ہے۔ ہر قطرے میں ہماری حکمت ہے۔ ہمارے حوالے کے بغیر نہ دیکھنا۔ ہمارے حوالے سے دیکھو گے تو راستہ ملتا جائے گا۔ منزل پر پہنچو گے۔ ہمارے حوالے سے نہیں دیکھو گے تو بھٹک جاؤ گے، راستہ نہیں ملے گا۔ کبھی پہنچو گے نہیں۔
قرآن نے بند آنکھیں کھولنے کی دعوت دی۔ دیکھنے کی دعوت دی۔ سوچوں کو آوارگی سے نکال کر ایک سمت بخشی، ایک مقصد عطا کیا۔ جمود سے نکالا، حرکت عطا کی۔
قرآن نے انسانی ذہن پر ایسا اثر کیا جیسے نمک کی چُٹکی سوڈے
کی بوتل پر کرتی ہے۔ بلبلے ہی بلبلے، حرکت ہی حرکت بامقصد حرکت۔ قرآن نے دو نئے تخیل دے کر انسانی جذبات میں تہلکہ مچا دیا۔ ایک واحدانیت، دوسرے مساوات۔
صاحبو ! قرآن کی آمد انسانی ذہن کے لئے ایک دھماکا تھا۔ ایسا ہی دھماکہ جیسا کائنات کی پیدائش پر ہوا تھا اور اس کے اثرات آج تک جاری و ساری ہیں ہیں۔ اس دھماکے کا احوال عظیم مفکروں نے بیان کیا ہے۔ یہ دھماکا انسانی ذہن میں وقوع پذیر ہوا۔
قرآن نے یوں ابتداء کی کہ اے محمد، پڑھ! ہمارے نام پر پڑھ۔ ہم جو کرم نواز ہیں، رحمت کرنے والے ہیں۔ ہم نے انسان کو قلم عطا کیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنا سیکھ اور ہم نے انسان کو علم عطا کیا۔ قرآن نے انسان کو فکر کرنے کی دعوت دی۔ سوچ، مظاہر فطرت پر غور کر۔ آسمان اور زمین میں کیسے تخلیق کیے گئے؟ موسم کیوں بدلتے ہیں؟ رات اور دن کا چکر کیا ہے؟
سوچ بدل کیا ہیں؟ ہوائیں کیسے چلتی ہیں؟ سورج چاند اور ستارے کیوں حرکت میں ہیں؟
قرآن کہتا ہے سوچ، فکر کر کہ پیدائش کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ بوٹے سر سبز ہو جاتے ہیں، سوکھ جاتے ہیں، کیوں؟ سوچ کہ بھور سمے کیا ہے؟ سورج غروب کیوں ہوتا ہے؟ پہاڑ کیوں کھڑے ہیں؟ ندیاں کیوں چلتی ہیں؟ سمندروں پر کشتیاں کیسے چلتی ہیں؟ آسمان پر تارے کیوں ٹمٹماتے ہیں؟ سوچ کے روح کی لطافتیں جسم کی لذتوں سے کیوں افضل ہیں؟
قرآن نے کہا علم تین قسم کا ہے۔ ایک وہ جس کا مشاہدہ کیا ہو، جو دوسروں پر بیتا ہو۔ دوسرا وہ جو خود پر بیتا ہو
اور تیسرا وہ جو تجربے سے سمجھا ہو۔
قرآن کی انقلابی تعلیم کے متعلق Dutsch کہتا ہے: ” قرآن وہ انقلابی کتاب ہے جس کے زور پر مسلمانوں نے یورپ میں آ کر علم کے دیئے سے اس علاقے کو منور کر دیا۔ انھوں نے اہلِ مغرب کو سائنسی تحقیق سے آشنا کیا اور یُوں جدید علوم کی بنیاد رکھ دی۔”
عقل اور علم کے بارے میں حضورِ اعلیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “پہلی چیز جو تخلیق کی گئی، عقل تھی اور باری تعالیٰ نے عقل سے بہتر کوئی چیز تخلیق نہیں کی۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ” جو شخص علم کی تلاش میں گھر سے نکلتا ہے، در حقیقت وہ اللہ کے راستے پر گامزن ہے۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “علم حاصل کرو۔ پھر تمھیں صحیح اور غلط راستے کی تمیز ہو جاۓ گی۔ علم بہشت کے راستے کی روشنی ہے۔ علم خوشی اور سُکھ کا راستہ بتاتا ہے اور مشکل میں صبر کی توفیق عطا کرتا ہے۔ علم صحرا میں ہمارا مونس و غمخوار بن جاتا ہے۔ علم دوستی میں ایک زیور ہے اور دشمنی میں حفاظتی زرہ بکتر۔ علم تنہائی میں ساتھی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “وہ شخص جو علم کا ذکر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہے۔ جو علم حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔ جو اس کی تبلیغ کرتا ہے، وہ گویا خیرات کرتا ہے اور جو دوسروں کو علم سکھاتا ہے، اللہ کی عبادت کرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عالموں کی باتیں سُننا اور انکی صحبت میں وقت گزارنا عبادت سے بہتر ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو عالموں کی قدر کرتا ہے، وہ دراصل میری عزت کرتا ہے۔
عالم کی دوات کی روشنائی مجاہد کے خون سے زیادہ متبرک ہے۔ قرآن نے عقل، علم اور تحقیق کو اہمیت دے کر ایک عظیم ذہنی انقلاب برپا کر دیا ہے۔
میرے پیارے محترم علماۓ دین ! اس خوش فہمی میں نہ رہیے کہ قرآن کا علم سے مطلب علمِ دین ہے۔ نہیں میرے محترم ! یہ بات نہیں۔ دین علم نہیں ہوتا بلکہ عمل ہوتا ہے۔ علم سے قرآن کا مطلب فزیکل علوم ہیں۔
اس سے پہلے کسی مذہب نے عقل و خرد، زندگی اور کائنات کو اہمیت نہ دی تھی۔ تمام مذاہب کی بنیاد توہمات اور مفروضوں پر قائم تھی۔ یہ خیال عام تھا کہ مذہب اور عقل دو متضاد رویے ہیں۔ تمام مذاہب اس زندگی اور کائنات کو سراب سمجھتے تھے اور آنے والی زندگی کو حقیقی۔