کتاب : تلاش
باب 9 : کریش سولائزیشن
ٹرانسکرپشن : افزا فاطمہ
نزول قرآن
قرآن کا نزول ایک بہت اہم واقعہ تھا. قرآن سے پہلے کسی مذہبی کتاب نے عقل و خرد اور علم و تحقیق کو اتنا بلند مرتبہ نہ بخشا تھا بلکہ عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ مذہب اور عقل دو متضاد چیزیں ہیں. قرآن کا رویہ حیرت انگیز تھا. وہ علم و حکمت کا خزانہ ہی نہیں تھا بلکہ سائنسی علوم کا سر چشمہ بھی تھا.
قرآن نے عقل و خرد اور علم و تحقیق کی ایک فضا پیدا کر دی. جگہ جگہ علمی درسگاہیں بن گئیں. یونیورسٹیاں وجود میں آ گئیں. نوجوانوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا. سائنسی تجربات کے لیے لیبارٹریاں بن گئیں. جگہ جگہ کتب خانے بن گئے. علمی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوا. کتابیں اکٹھی کرنا فیشن بن گیا. ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں کتب خانے بنا دئیے گئے. صرف شہر بغداد میں چھ ہزار کتب خانے تھے. خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں. قرطبہ کے کتب خانے میں چار لاکھ نادر کتابیں موجود تھیں جس کا کیٹلاگ 44 جلدوں میں مکمل ہوا تھا. کہتے ہیں بغداد کی ایک گلی میں کتابوں کی سو دکانیں تھیں.
علم کے اس شوق کی وجہ سے دو سو سال میں عرب علماء نے کئی ایک کتابیں تصنیف کر ڈالیں. ان کتابوں نے چاروں طرف علم کی روشنی پھیلا دی. جب عربوں نے سپین فتح کر لیا تو علم کا ذوق وہاں بھی پھیل گیا. عربوں کی تحقیقاتی کتابیں سپین, فرانس, اٹلی اور انگلستان میں پہنچ گئیں. ان کتابوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے.
بہت دیر بعد یورپ میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں تو یہی کتابیں پڑھائی جانے لگیں. یوں مسلمانوں کی لکھی ہوئی سائنس اور فلکیات کی کتابیں یورپی درسگاہوں میں چار سو سال تک پڑھائی جاتی رہیں, اٹھارویں صدی عیسوی تک.
چونکہ یہی تعلیم کا مستند ذریعہ تھا.