کتاب : تلاش
باب 12 : دشمنی یا خوف
ٹرانسکرپشن : محمد مزمل
قومی زبان
1947ء میں جب برطانیہ ہندوستان سے گیا تھا تو لاہور میں صرف تین انگریزی سکول تھے، اب تین ہزار سے زائد ہیں۔ اسلام آباد کے سکولوں میں بچے میٹریکولیششن کے لیے نہیں بلکہ او لیول اور اے لیول کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ان کا نصاب آکسفورڈ اور کیمرج میں تیار ہوتا ہے۔
ہمیں آزادی ملے 48 سال ہوچکے ہیں لیکن آج تک ہماری کوئی قومی زبان نہیں۔ اس مسئلے کو ایسا سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے کہ لگتا ہے جیسے قومی زبان کا مسئلہ کبھی حل نہ ہو گا اور دفتروں میں انگریزی زبان کا راج رہے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بیوروکریٹ انگریزی رنگ میں رنگے رہیں گے۔ وہ انگریزی کو سٹیٹس سمبل سمجھتے رہیں گے۔ اسلام آباد میں 20 گریڈ کا افسر 18 گریڈ کے افسر سے سوشل رابطہ نہیں رکھے گا۔ سی ایس پی کا 17 گریڈ کا افسر نان سی ایس پی افسر سے ملنے میں کسر شان محسوس کرے گا۔ سکولوں اور کالجوں میں گروپ بنے ہوئے ہیں۔ انگلش میڈیم والے اردو میڈیم کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
حالات بہت تاریک ہیں۔ مسلم ممالک پر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ لیکن ٹھہریے ! اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک کرن چمکی ہے۔
بین الاقوامی مسلمان علماء اور دانش وروں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
وہ مسلمانان عالم سے پوچھ رہے ہیں کہ بھائیو ! کیا ہم مسلمان ہیں؟
بیداری کی کرن طلوع ہورہی ہے۔
صاحبو ! مغرب کی اسلام دشمن تحریکوں کے بارے میں جان کر اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوجایئے گا کہ مغرب کے عوام ، اسلام کے خلاف تعصب سے بھرے ہوئے ہیں۔ اہل مغرب کے خلاف ہم عیب جوئی کرتے رہتے ہیں ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مغرب کے عوام منافق نہیں ہیں اور وہ ذہنی طور پر بددیانت نہیں ہیں۔