کتاب : تلاش
باب 3 : نئی نسل
ٹرانسکرپشن : شبانہ حنیف
جان لینا مان لینا
سیانے کہتے ہیں اگر تم اپنی کمزوریوں ، کجیوں ، کمیوں کو جان لو ، سچے دل سے مان لو تو ان کی شدت کم ہو جاتی ہے ، وہ مدھم پڑ جاتی ہیں۔۔ اگر نہ مانو تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔۔ ان کی شدت بڑھ ضجاتی ہے۔۔ وہ راون بن جاتی ہیں۔۔ انھیں اہمیت نہ دو”اگنور ” کردو ” ڈیوائن ڈسڈین۔۔ “
بڑے جب نئ نسل پر لاحول پڑھتے ہیں تو انہیں لاحول کے مفہوم کا احساس نہیں ہوتا ۔۔ لاشعوری طور پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان نئی نسل کو ورغلا رہا ہے۔۔
اگر وہ لاحول کے مفہوم پر غور کریں تو انھیں احساس ہو کہ یہ مشیت ایزدی ہے۔
یہ جو نئ نسل میں شدت پیدا ہو رہی ہے ، یہ شیطان کا کارنامہ نہیں۔۔ شیطان بہکا سکتا ہے ،وہ مخلوق کا رنگ بدلنے پر قادر نہیں ہے ۔
کسی صاحب نے نئ نسل کی شدت کے بارے میں کیا خوب بات لکھی۔۔
کہنے لگے : ” ہمارے دور میں اللہ نے ایک پاؤں بریک پر رکھا ہوا تھا۔۔ اب ایکسلیریٹر پر رکھ لیا ہے۔۔”
ہماری نئی نسل مردود نہیں ، مظلوم ہے۔۔
ایک پاؤ بھر کے پیمانے میں سیر بھر انرجی ٹھونس دی گئی ہے ۔۔
صرف ہم ہی نہیں ، نئی نسل کے روئیے پر ساری دنیا ہی نالاں ہے۔۔ ان میں شدت ہے، بلا کی شدت….. جیسے پاؤ بھر کی بوتل میں سیر انرجی ٹھونس دی گئی ہو۔۔ ان میں بلا کی بے چینی ہے۔۔ قیام سے محرومی ، مسلسل حرکت ، جلدی اور جلدی۔ جلدی چلیں ،جلدی پہنچیں ، جلدی لوٹیں ، جلدی جئیں ،جلدی مریں…… ان کی کوئی منزل نہیں… صرف جلدی۔۔ ان کا کوئی رخ نہیں ، صرف حرکت۔۔
یہ شدت ان پر عائد کی گئی ہے۔۔
لگتا ہے جیسے پہلے اللہ تعالیٰ کا پاؤں بریک پر تھا ،اب ایکسلیریٹر پررکھ دیا گیا ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔
تاریخ کائنات شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے تجربات اکثر کیا کرتا ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ برسات میں چیونٹیوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ پھر وہ پروانے بن جاتے ہیں ۔۔ مسلسل حرکت ، دیوانہ وار حرکت۔۔
نئی نسل کو دیکھ کر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے چیونٹیوں کو پر لگا دیئے گئے ہوں۔۔
اخباروں میں اکثر خبریں آتی ہیں کہ نوجوان جرم کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ موٹر سائیکل 120 میل کی رفتار سے چلاتے ہیں۔۔ تفریحاً پلانڈ (Planned) چوریاں کرتے ہیں۔۔ ڈکیتیاں کرتے ہیں۔۔ مقصد لوٹ مار نہیں ہوتا ،چوری نہیں ہوتی۔۔ صرف ایڈونچر۔۔ اس بات پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی جو میں نے چھٹی جماعت میں پڑھی تھی۔۔