کتاب : تلاش
باب 13 : انوکھا شہنشاہ
ٹرانسکرپشن : سعیدہ سونی
ڈاکٹر امانت مفتی
ڈاکٹر امانت مفتی میرا ماموں زاد بھائی ہے۔ اگرچہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے مگر میرا دوست ہے۔ ہم دونوں میں کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ وہ شعریت کے حوالے بغیر کوئی کام نہ کرتا تھا۔ میں مغرب زدہ تھا۔ اس کے باوجود وہ مجھے دوست جانتا تھا۔ زندگی میں مجھ پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا تو میں نے ڈاکٹر امانت کے ہاں پناہ لی۔
حال ہی میں وہ مجھ سے ملا۔ کہنے لگا۔ ایک بات پوچھوں ؟
میں نے کہا ۔ پوچھوایک نہیں۔ دس پوچھو۔
کہنے لگا ۔ تم تو ادبی آدمی ہو۔ ہمیشہ ادبی مضمون لکھتے رہتے ہو۔تم نے مذہب پر لکھنا کیسے شروع کر دیا۔ میں تمہارا سلسلے وار مضمون ” تلاش” باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تم اس موضوع پر کیوں لکھنے لگے ہو ؟
میں نے کہا ۔ ڈاکٹر میں تو پھنس گیا ہوں۔ بہت بری طرح پھنس گیا ہوں۔
وہ بولا ! دیکھ ، ٹال مٹول نہ کر یہ بتا تجھے ہوا کیا ہے؟
میں نے کہا ۔ مجھے وہم ہو گیا ہے شدت کا وہم۔ کہ جب تک میں یہ کام نہیں کروں گا۔ مجھے چھٹی نہیں ملے گی۔
اور ڈاکٹر میں اب جانا چاہتا ہوں۔ میں نے بات جاری رکھی۔ میں 90 سال کا ہوگیا ہوں۔ میرے اعضا تھک گئے ہیں۔ کہتے ہیں اب بس کرو بہت ہو گیا۔ ہم ٹک ٹک کرتے گھس گئے ہیں۔ وہ سچ کہتے ہیں ڈاکٹر میرے لیے جینا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ میں سمجھا نہیں۔ وہ بولا۔ اس بات کا مذہب پر لکھنے سے کیا تعلق ہے ؟
ٹھیک کہتے ہو تم ۔ میں نے جواب دیا۔ میں وضاحت کرتا ہوں۔