کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : منیب احمد
فقیر چند
پرانے زمانے کی بات ہے جب میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا. وہاں میرا ایک یار تھا فقیر چند. سبحان اللہ! کیا باغ و بہار آدمی تھا. آج 62 سال ہو چکے ہیں لیکن فقیر چند کی شخصیت کی خوشبو آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے.
میں کہتا : فقیر چند ! “you are a loveable man” جواب میں وہ چلاتا : یار مفتی ! مجھ ہی سے کہتا رہتا ہے , تو کبھی اسے بھی جا کر بتا کہ میں “لووےبل” ہوں. خاک “لووےبل” ہوں. دھرم سے دو گھنٹے دم ہلاتا رہتا ہوں , پھر کہیں وہ ایک میٹھی نظر ڈالتی ہے اور تو کہتا ہے”لووےبل” ہوں.
اس زمانے میں سنٹرل ٹریننگ کالج میں نئی نئی کو ایجوکیشن (مخلوط تعلیم) شروع ہوئی تھی. ہمارے ساتھ خواتین ٹریننگ حاصل کر رہی تھیں. ان میں سے ایک خاتون کو فقیر چند نے اپنا رکھا تھا.
وہ روز اپنے رومان کی انوکھی خبر لاتا تھا. مثلاً وہ کہتا : ” یار مفتیب! سارا دن محنت مزدوری کی, تعریفیں کیں, حسن و عشق کے جتنے شعر مجھے آتے تھے, سنا دیئے. دیوی کو منانے کے لیے آرتی چڑھائی, سیس نوایا, ماتھا ٹیکا اور پتا ہے اس دن بھر کی محنت مزدوری کا کیا انعام ملا ! سالی نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا. بولی: You may kiss it. ہے بھگوان ! تیری اس دنیا میں اتنا انیائے. یار ہمارے بھگوان سے تو تمہارا اللہ ہی بہتر ہے جو کہتا ہے کہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدور کی مزدوری ادا کر دی جائے.”
میں کہتا: ” یار فقیر چند ! یہ تو نے کیسی محبوب بنائی ہے. منہ نہ متھا.”
وہ جواب دیتا: ” ہائے مفتی ! تو نے اسے نہیں دیکھا. بھگوان کی قسم ! دودھ کی نہریں چل رہی ہیں وہاں”.