ہم سب آزاد ہیں – حیدر یحییٰ
کسی بھی معاشرے کی بنیادی عکاس اس معاشرے یا سوسائٹی کی تاریخ ہوتی ہے .. وہ معاشرہ کیسے وجود میں آیا.. اس معاشرے کے وجود میں آنے کے ممکنہ عوامل کیا تھے .. پاکستان تاریخ عالم میں اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ ریاست مدینہ کے بعد جس معاشرے کی بنیاد اسلام اور اس کے مروجہ عقائد پر رکھی گئی وہ پاکستان تھا .. چودہ سو سال پہلے مختلف القسام بتوں کی غلامی سے چھٹکارہ پانے سے لے کر , مختلف بتوں کی پوجا کرتے ہوئے ہندووں کی ممکنہ غلامی سے آزادی تک , یہ پاکستان کا معاشرہ اور ہم لوگ ہی ہیں جنہوں نے اکیسویں صدی کے طلوع ہوتے سورج کو آزادی کے نئے جذبوں سے روشناس کروایا ہے … آج اگر دیکھ جائے تو ایک گھٹن زدہ دور میں بھی جب دہشت گردی کا ناسور ہماری رگوں میں زہر قاتل بن کر سرایت کر رہا ہے تو ہم اس کو کھلے عام باطل کا طرفدار کہنے ہر آزاد ہیں .. ہم معاشیات کی تنگی کو پس پشت ڈال کر ایک روشن پاکستان کے مستقبل کی نوید سننے کے لیے اپنے تمام تر مثبت پن سے آزاد ہیں .. غلامی کی گھٹن زدہ سوچوں سے ہمارے زہنوں کے جالے پنپ نہیں پاتے اور ہم حالات کے کھٹن دورانیے کو اک نئی ہمت سے برداشت کرنے کے لیے آزاد ہیں .. ہم آزاد ہیں کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بلا خوف و خطر اس ٹکرا زمیں کی جھولی میں ڈالیں جو آزادیوں کے سفر میں آبلہ پا نکلا تھا لیکن اب ہمیں کسی شفیق ماں کی گود فراہم کیے ہوئے ہے… ہاں انسان صرف آزادانہ نقل و حرکت اور زمین کے ایک ٹکڑے پر قابض ہونے سے آزاد نہیں ہوتا.. انسان اپنے افکار,اپنی متعین کردہ مستقبل کے لائحہ عمل اور دوسری قوموں کے ساتھ اپنے تقابلی فکری عمل اور بہترین صلاحیتوں کے استعمال پر جب خود کو زہنی اور دلی طور پر مکمل آزاد محسوس کرے اور بہتر مثبت طریقے سے ان کے نتائج کو بلا خوف و خطر حاصل کرنے کی کوشش کرے, تب وہ آزاد کہلاتا ہے .. ہم نے اپنی پیدائش سے لیکر اس ملک کے نوجوانی میں قدم رکھنے تک اپنی ایک ایک سانس میں آزادی محسوس کی ہے…. ہم اس کے مستقبل کے لیے پر امید ہیں .. اور اپنا تمام مثبت پن اور صلاحیتیں اس امید کے ساتھ اس پر نچھاور کرنے کو تیار ہیں..کہ اس آزادی کے ثمر کا پھل ہماری آنے والی نسلوں کو بہرہ ور کرے گا اور وہ ہم سے زیادہ آزاد محسوس کریں گیں