بی بی جی، ایک آف دی ریکارڈ ہستی
احسان حقانی
ہمارے ہاں خواتین ایک آف دی ریکارڈ مخلوق ہے. ایک آدمی یہ تو بڑے فخر سے بتائے گا کہ اس کے اتنے بھائی یا بیٹے ہیں لیکن بہن یا بیٹی کا ذکر کرنا بھی سخت ناگوار بلکہ ناقابل برداشت ہوتا ہے.
اس کے باوجود میں اپنی والدہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں. وہ خود تو سات پردوں کی پردہ نشین اور آف دی ریکارڈ ہیں لیکن اس دھان پان ہستی نے ہزاروں بچوں کی تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کی جو نیٹ ورکنگ کی ہے وہ حیرت انگیز بھی ہے اور قابل ذکر بھی.
میری والدہ کا نام بی بی ہاجرہ ہے. ان کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ ہے. محلہ کے سب چھوٹے بڑے انہیں بی بی جی کہتے ہیں. خاندان کے کچھ لوگ انہیں خور بی بی اور کچھ ترور بی بی کہتے ہیں. کچھ رشتہ داروں کو انہیں مولانا بی بی کے نام سے پکارتے ہوئے بھی سنا ہے. ایسا نام آپ نے یقیناً پہلے نہیں سنا ہوگا.
بی بی جی اپنے دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں. اللہ نے انہیں دس بیٹے دئیے. بیٹی کوئی نہیں ہے. اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے تن تنہا اپنے دس بیٹوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی. خود زیادہ پڑھی لکھی نہیں لیکن بڑا بیٹا فزیشن اور عالمی سطح کے میڈیکل کنسلٹنٹ ہیں. دوسرا بیٹا مدینہ یونیورسٹی سے گریجویٹ، مکہ ہائی کورٹ سے (ترجمان) ریٹائر اور آج کل حجاج اور معتمرین کی خدمت کے ایک بڑے ادارے میں اعلی عہدے پر ہیں. تیسرا اور چوتھا بیٹا منگورہ میں اپنا کاروبار کرتے ہیں. پانچواں اسلام آباد میں صحافی، چھٹا پاک فوج میں کرنل ہے. ساتواں بیٹا دس سال لندن میں گزار کر اس وقت مکہ مکرمہ کی ایک یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے استاد ہیں اور آٹھواں بیٹا لندن کے اسلامک سنٹر میں استاد اور مربی کی حیثیت سے دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں. بی بی جی نے اولاد کا غم بھی دیکھا ہے. پہلا بیٹا دو سال کی عمر میں فوت ہوا. پانچواں بیٹا 18 سال کی عمر میں ایک حادثہ میں جاں بحق ہوا. اس طرح پورا سال بیرون ملک مقیم بچوں کی آمد اگر عید سے بڑھ کر خوشی ہوتی ہے تو ان کے واپس جانے کا غم بھی صرف بی بی جی ہی جانتی ہیں.
والد صاحب مرجع خلایق تھے. دنیا بھر سے لوگ ان سے ملنے آتے. اتنے مہمانوں اور دس بچوں کی تعلیم و تربیت کوئی چھوٹی ذمہ داری نہیں تھی لیکن بی بی جی پھر بھی کچھ وقت نکال محلے کے بچوں کو قرآن حکیم پڑھاتی تھیں. بیک وقت بیس تیس بچے صبح اور سہ پہر قرآن پڑھنے ہمارے گھر آتے. پڑوس کی خواتین بھی اپنا دکھ سکھ بانٹنے آتے. بی بی جی کی سہیلیوں کی محفل روز جمتی، جہاں سے کبھی ہنسنے کی آواز آتی تو کبھی مل کر آنسو بہائے جاتے. ہمارے گھر کا پانی اپنی ٹھنڈک اور مٹھاس کے لئے مشہور تھا. بیسیوں لوگ پانی بھرنے کے لئے آتے تو بی بی جی دوڑ دوڑ کر پانی بھرنے میں ان کی مدد کرتیں. آس پاس کے کئ دکاندار خالی کولر دروازے میں رکھتے اور بی بی جی انہیں پانی سے بھر کر واپس رکھ دیتیں. کوئی کولر صاف نہ ہوتا تو جلدی سے دھو لیتیں. گرمی کی دوپہر میں جب ہم آرام کرنا چاہتے، تو بار بار گھر کی گھنٹی بجتی. ہم بڑبڑاتے کہ ان لوگوں کو کسی کی بے آرامی کا ذرہ برابر احساس نہیں لیکن بی بی جی سپرنگ کی طرح اٹھتی. ضرورت مند کو پانی، نمک، چینی، سالن یا جو بھی چاہیے ہوتا، دے دیتی. وہ گھر میں تندور بھی لگاتی اور اپنی روٹیوں کے ساتھ دو تین اور گھروں سے آئے ہوئے پیڑوں کی روٹیاں بھی پکا لیتیں. بی بی جی کے پکائے ہوئے سالن میں ایک دو اور گھروں کا بھی حصہ ہوتا. ہمارا گوالا گویا رشتہ دار ہوتا. بی بی جی اس کو بلا ناغہ چائے اور گھی والی روٹی کا ناشتہ کراتیں. مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام کاموں میں ہمارا رویہ عدم تعاون کا ہوتا لیکن بی بی جی منت ترلے اور کسی نہ کسی طریقے سے اس کارخیر میں ہم سے بھی پورا کام لیتی ہیں.
بی بی جی نے کچھ یتیموں، بیواؤں اور دیگر ضرورت مندوں کی مستقل مدد کا انتظام بھی کیا ہوتا ہے. حال ہی میں ایک بچے کو ایم بی بی ایس کرانے کا منصوبہ مکمل کیا. بی بی جی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی ضائع کرنے کی روادار نہیں. قربانی کے جانور کا سر کس کو دینا ہے اور اوجھڑی کس کو، پرانا کوٹ کس کو دینا ہے اور جوتے کس کو. سفید رنگ کا جوڑہ کیسے آدمی کو دینا ہے اور گہرے رنگ کا کس کو. زکوٰۃ کے پیسے کس کو دینے ہیں اور خیرات کے پیسے کس کو. یہ سارے امور طے شدہ ہوتے ہیں.
2009 میں جب سوات کے لوگ بے گھر ہوئے تھے تو میرے ایک بھائی نے ضرورت مندوں کی مدد کے لئے کچھ رقم بھیجی. میں نے اپنے طور پر ضرورت مندوں کی ایک فہرست بنائی. بزعم خود اس سے بہتر فہرست نہیں ہو سکتی تھی. پھر بھی تقسیم سے پہلے میں نے بی بی جی کو فون کیا. میں نے اصل رقم سے کافی کم بتائی کہ بھائی نے پیسے بیجھے ہیں، کس کو دوں. بی بی جی نے ایک نام بتایا. میں ان کے انتخاب پر حیران رہ گیا اور فوراً قایل ہوگیا کہ واقعی سب سے پہلے اس خاندان کی مدد ہونی چاہیے. میں نے کہا کچھ اور پیسے بھی ہیں. بی بی جی نے ایک اور نام بتایا اور میں فوراً قایل ہو گیا کہ دوسرا حق ان کا ہے. اس طرح ایک ایک کر کے بی بی جی نام بتاتی رہیں اور میں قایل ہوتا رہا کہ بی بی جی کی فہرست میری فہرست سے بہت بہتر ہے. اس طرح بی بی جی نے یہ بھی رہنمائی کی کہ فلاں کو فون کردو تو وہ خود پیسے وصول کر لے گا. فلاں کے پیسے فلاں کو دے دو تو اسے مل جائیں گے. اور جو کام مجھے پہاڑ جتنا لگ رہا تھا وہ بی بی جی کے ایک فون سے گویا ہوگیا.
ہمارے گھر میں سرخ املوک کا ایک درخت ہے. کئ بار اسے کاٹنے کا فیصلہ ہوا لیکن بی بی جی کی مخالفت کی وجہ سے وہ درخت بچ جاتا. ایک دفعہ بی بی جی راضی ہو گئیں. میں آرا مشین میں آری لینے گیا. ہمارا پڑوسی ودان بیٹھا ہوا تھا وہ میرا ہم عمر اور دوست بھی ہے. میں نے آری مانگی کہ املوک کاٹنا ہے. اس نے کہا آری تو ہے لیکن دوں گا نہیں کیونکہ بی بی جی املوک کاٹنے کے خلاف ہیں. میں نے کہا دوست میرے ہو اور طرف داری بی بی جی کی؟ کہنے لگا ہاں، دوست تو تمہارا ہوں لیکن ہر سال میرے گھر میں املوک بی بی جی بھیجتی ہے، تم نے کبھی ایک بار بھی یاد کیا ہے؟ میں حیران رہ گیا کہ اس ایک درخت کا پھل کہاں کہاں تک پہنچتا ہے. بی بی جی اپنی ملکیت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو حصہ پہنچاتی ہیں خواہ وہ املوک کے چار دانے ہی کیوں نہ ہوں.
مضمون پہلے ہی بہت لمبا ہوگیا ہے اور بی بی جی کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لئے کم از کم ایک کتاب کی ضرورت ہے. بس اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کے مال اور وقت میں برکت دیتا ہے. عام انسان کے لئے دن اور رات اپنی ذات کے کاموں کے لئے بھی تنگ پڑتے ہیں لیکن خدا کے محبوب بندے اسی تنگ وقت میں اتنے زیادہ کام کرتے ہیں کہ عام لوگ حیران رہ جاتے ہیں.
بی بی جی اب بھی متحرک ہیں. صبح سویرے اٹھتی ہیں. سکول جانے والے پوتوں کو زبردستی ناشتہ کراتی ہیں. گوالے سے دودھ لیتی ہیں . پیسوں کا حساب رکھتی ہیں. ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہیں، لیکن یہ سب کچھ آف دی ریکارڈ ہے. کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت آف دی ریکارڈ ہے. اس کا نام لینا بے شرمی ہے اور اس کی تعریف کرنے یا شکریہ ادا کرنے کی کوئی روایت نہیں.