حیات از قلم عظمیٰ خرم
#حیات_پارٹ_7
# حیات
پارٹ 7
بختاور اب خود کو پہلے سے زیادہ مظبوط محسوس کر رہی تھی ۔اب اللّه اس کے ساتھ تھا ۔وہ اس سے باتیں کر رہا تھا ۔اسے لگا اس کے دل کا مکین لوٹ آیا ہے ۔جب کبھی اسکی ہمت جواب دینے لگتی تو وہ قرآن کھول لیتی اور پڑھنے لگتی ۔اسے ہر ہر آیت پر اپنے لئے تسلی ،دلاسہ محسوس ہوتا۔ایسا نہیں تھا کہ وہ بچوں کو بھول گئی تھی وہ بھول کیسے سکتی تھی ،”ماں “،تھی وہ خالق تھی ۔جب اللّه اپنے فرمابردار بندے یا گنہگار بندے کو نہیں بھولتا کیوں کہ وہ خالق ہے ،اور خالق کو یہ زيب نہیں دیتا کہ اپنی مخلوق سے منہ موڑ لے تو یہی صفت اس نے ماں میں بھی ڈالی ہے وہ کبھی اپنی اولاد سے منہ نہیں موڑتی ۔دو مہینے کے عرصے میں وہ چار بار چوری چوری بچوں کو دیکھ آئی تھی ۔ہر بار اسے زاہد اور حامد کی صحت زیادہ اچھی نظر آتی تھی ۔کئی بار اس کا دل چاہا کہ وہ بھاگ کر انہیں گلے لگا لے پر ہر بار ماسٹر اللّه دتہ کی تنبیہ یاد آ جاتی کہ اگر وہ اس طرح بے صبری دکھاے گی تو اس کے بچے یہاں ٹکنے کے نہیں ۔
آج پورے ڈھائی مہینے بعد وہ اپنے بچوں کو دو دن کی چھٹی پر ساتھ لے جانے کے لئے آئی تھی ۔دارلشفقت کا یہی اصول تھا کہ اگر کسی بچے کے کوئی رشتہ دار انہیں ملنے کے لئے گھر لے جانا چاہیں تو چھٹی پر انہیں گھر لے جا سکتے ہیں ۔
زاہد اور حامد اب پوری طرح دارلشفقت کے ماحول میں ڈھل چکے تھے ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ بےبے کو بھول گئے تھے پر اب انہیں لگتا تھا کہ بےبے کبھی نہیں آے گی اور آنے والے چھے سات سال انہیں اسی چاردیواری میں گزارنے تھے ۔
جمعرات کو آدھی چھٹی کے بعد زاہد اور حامد میدان میں فٹ بال کھیل رہے تھے جب انہیں ماسٹر اللّه دتہ نے اپنے دفتر میں بلا بھیجا ۔کسی قدر حیرانی اور پریشانی سے ان دونوں نے ان کے دفتر کا رخ کیا ۔ماسٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ دونوں حیرت زدہ رہ گئے ۔سامنے ان کی بےبے مسکراتے چہرے اور آنکھوں میں نمی لیے ان کی منتظر تھی ۔
چھوٹا حامد تو فورا ہی بےبے کہہ کر ماں سے لپٹ گیا پر بڑا والا دس سالہ زاہد حیرت زدہ لب اور مٹھیاں بھنچے آنکھوں میں نمی لیے کھڑا رہا ۔اس کے جذبات کی گرم جوشی عجیب لے پر تھی ۔اس کا دل چاہا وہ بےبے کو مارے ،اس کمرے کی ہر چیز توڑ دے تہس نہس کر دے ۔آخر اب کیوں آئی ہے یہ ؟تماشا دیکھنے کہ ہم زندہ ہیں یا مر گئے ہیں ؟اس کا دل ،دماغ عجیب جنگ میں برسر پیکار تھے ۔وہ خود سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟روے یا ہنسے ؟کیا کرے ؟
حامد ماں کے گلے سے لگا مسلسل رو رہا تھا اور بےبے بھی ۔تبھی بےبے کا دھیان زاہد پر گیا ۔کسی انہونی کا احساس اس کے دل کو یخ کر گیا ۔ماسٹر اللّه دتہ بھی اس سارے جذباتی منظر میں زاہد کا کردار نا سمجھی سے ملاحضہ فرما رہے تھے ۔بےبے نے آگے بڑھ کر زاہد کو گلے سے لگانا چاہا پر زاہد نے بازو وا نہ کئے ۔
سارے راستے حامد بےبے سے باتیں کرتا رہا ۔وہ بہت بہت خوش تھا ۔اس کی نا امیدی کو امید ملی تھی پر کچھ تھا جو بختو کو کھٹک رہا تھا ۔زاہد نے بختو کے بار بار بلانے پر بھی سارا راستہ خاموشی سے بس کی کھڑکی سے باہر دیکھتے گزارا ۔گھر آتے ہی دونوں اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرنے اور کھیلنے لگے ۔محلے کے سب بچے اشتیاق سے ان کی باتیں سن رہے تھے کسی کے لئے وہ بے حد خوفناک تھیں اور کسی کے منورنجن کا ذریعہ غرض ہر کوئی اپنا اپنا حصہ وصول کر رہا تھا ۔کسی کو وہ نئے کپڑے پہنے باہر کے ملک سے آے ،”باؤ”،لگ رہے تھے تو کسی کو وہ جيل سے چھٹ کر آے قيدی ۔کسی کے لئے وہ قابل رشک تھے تو کسی کے لئے قابل ترس ۔
بختاور نے آج خاص اہتمام سے بچوں کے لئے مرغ پلاؤ بنایا تھا ۔حامد نے تو بہت خوش ہو کر کھایا پر زاہد نے نہیں ۔بختاور کے لئے اس کا رویہ سمجھ سے باہر تھا ۔زاہد جب سے آیا تھا اکھڑا اکھڑا سا تھا کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا ۔شازی نے بھی اس کا رویہ محسوس کیا تھا ۔حامد جب سے آیا تھا احد سلطان کو گود میں کھیلا رہا تھا پر احد جب بھی زاہد کے پاس آنے کی کوشش کرتا زاہد اسے غصے سے جھٹک دیتا ۔ایسی ہی ایک کوشش میں زاہد نے اپنی قمیض جھٹکے سے چھڑائی تو احد منہ کے بل گرا اس کا سامنے کا دانت اس کے ہونٹ میں پیوست ہو چکا تھا ۔بچہ ایک ہی سانس میں چلا گیا اس کے سارے کپڑے خون سے رنگین ہو گئے تھے ۔
زاہد کے رویے سے پریشان بختاور احد کی تکلیف سہہ نہ پائی اور اسے گود میں لیے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔نوراں یہ ہاہا کار سن کر بھاگی آئی اور احد کو بختاور کی گود سے لے لیا اور اس کے ہونٹ پر ٹھنڈا پانی ڈالنے لگی کہ کسی طرح خون بند ہو جائے ۔سب کچھ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔بختاور اپنے ہاتھوں پر احد کا خون دیکھ کر زار قطار رو رہی تھی ۔نوراں کو وہ بلکل اپنے حواسوں میں نہیں لگی تھی ۔
عظیم اللّه احد کو باہر لے گیا اور میٹھی گولی لے کر دی جسے لیتے ہی وہ رونا بھول کر مسکرانے لگا ۔زاہد اس ساری صورتحال کے لئے بلکل بھی تیار نہیں تھا ۔اس کا بھی دل پریشان ہو گیا تھا احد کو دیکھ کر اور اب بےبے کے آنسو تو گویا اس کے دل پر گر رہے تھے ۔نوراں نے بختاور کو پانی پلایا ،”کیا ہو گیا ہے تجھے !جهلی نہ ہو تو ،بچے تو گر ہی جاتے ہیں اس میں اتنا بین ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ،حوصلہ رکھ “۔ بختاور کیا بتاتی کہ اس کے دل کو احد کے خون سے زیادہ زاہد کے رویے نے چوٹ پہنچائی ہے ۔اس کی اولاد نے ایک بار بھی ماں کے کلیجے کو ٹھنڈ نہیں ڈالی تھی ۔دنیا کے محاذ پر بے خوف ہو کر لڑنے والی بختاور اپنی اولاد کی نفرت کے آگے ڈھیر ہو گئی تھی،وہ ہار گئی تھی.سب کچھ بے معنی ہو چکا تھا اس کے لئے ،”نہیں نوری !میری بس ہو گئی ہے میں اچھی ماں نہیں بن سکی ،یا اللّه تو مجھے معاف کر دے میں نے اپنی اولاد پر بڑا ظلم کر دیا انہیں یتیم خانے بھیج کے “۔
ماں کو اس حال میں دیکھ زاہد کے دل کی برف بھی پگھل ہی گئی اور وہ تڑپ کر ماں کے سینے سے آ لگا اور بے اختیار اس کے ہاتھوں کو چومنے لگا ۔وہ معافی مانگنا چاہتا تھا پر زبان ساتھ دینے سے انکاری تھی پر اس کے آنسو اس کی ہچکیاں اس کی دلی حالت کے گواہ تھے ۔بختاور نے بھی روتے روتے بڑھ کے بیٹے کو گلے سے لگا کر بھنچ لیا۔سارے گلے شکوے دور ہو چکے تھے ۔ماں کے کلیجے کو ٹھنڈک پڑ گئی تھی ۔
پر ابھی بھی دل کے کسی کونے میں اسے یہ بات دکھ دینے کے لئے موجود تھی کہ ماں نے انہیں تو خود سے دور دارلشفقت بھیج دیا اور کاکے احد اور آپا شازی کو اپنے پاس رکھ لیا اسے ان دونوں سے حسد محسوس ہو رہا تھا ۔اور اس حسد کو اس نے ڈھائی مہینے پالا تھا لمحہ لمحہ دن رات میں سینچا تھا پر وہ معصوم یہ نہ جان پایا کہ اس کا حسد نفرت بن چکا تھا اور اسی نفرت میں اندھے ہو کر اس نے احد کو دھکا دے دیا تھا ۔
پر اس رات بختاور نے احد کو شازی کے ساتھ سلا دیا اور زاہد کو اپنے ساتھ ،اسے اچھے سے پتا تھا کہ اس کے بیٹے کی حسد کی آگ مامتا کی ٹھنڈی پھوار سے ہی بجھ سکتی ہے ۔ساری رات ماں بیٹا باتیں کرتے جانے کب نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔
چھٹی کے بعد واپس جانا بڑا کٹھن تھا پر اب بختاور نے انہیں آس کی ڈوری تھما دی تھی کہ وہ ہر پندرہ دن بعد یا تو انہیں ملنے آے گی یا انہیں گھر لے جایا کرے گی ۔
دن مہینے سال گزرنے لگے ۔اب زاہد اور حامد اب نویں اور دسویں جماعت کے طالب علم تھے اور خاصے سمجھدار تھے اب وہ چھٹی کے روز خود گھر آ جاتے اور خود ہی واپس چلے جاتے ۔دونوں نے دارلشفقت میں رہتے ہوے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھا تھا ۔زاہد ایک اچھا الیکٹریشن تھا بجلی کے پنکھے ،موٹر کا کافی کام جانتا تھا ۔جب کے حامد لکڑی کی کرسی میز چھوٹی بڑی الماری بڑی اچھی بنا لیتا تھا۔دونوں نے اپنی مہارت سے اتنا پیسہ کمانا شروع کر دیا تھا کہ ہلکا پھلکا جيب خرچ نکال لیتے تھے ۔
جاری ہے…….. جاری ہے….
از قلم ،”عظمیٰ خرم “