سوچو اور لکھو
بہترین دنوں کے لئے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے
تحریر : رافع علی
آج کے اس موضوع پر تحریر میری طرف سے ہے، اور جوابات قرآن مجید اور احادیث سے ہیں.
آج کل ہر دوسرا شخص دکھی دکھائی دیتا ہے، چہرے پر مسکراہٹ، زبان پر رب العالمین سے گلے اور شکوے..
بس میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے.. میں تو سب اچھا کرتا/کرتی ہوں، ساری اذیتیں، سارے دکھ تکلیفیں کیا بس میرے لیے ہی رہ گئی ہیں. جتنا مرضی کر لو، کوئی مجھ سے خوش نہیں ہوتا، میں تو اللہ کر کے مر ہی جاؤں، جان چھوٹے میری ان عذابوں سے، اور ان کو بھی کوئی اور گھر ملے.
مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری آزمائش ہے، جیسے یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازاروں میں غلام بھی اللہ نے بنایا اور پھر اسی مصر کا تخت و تاج بھی آپ کو نوازا.
حضرت یونس علیہ السلام کو بارہ سال کم و بیش مچھلی کے پیٹ میں ڈال کے رکھا اور پھر نکالا بھی خود ہی..
اور یہ بھی کہا کہ میرے تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں. سبحان اللہ
ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ص کو کبھی عشق خدا میں طائف والوں سے پتھر پڑتے ہیں اور آپ کی زبان پر پھر بھی کلمہ طیبہ جاری ہے آپ ان کے لئے دعا گو ہیں. بد دعا نہیں دی، یہاں یہ حال ہے ہم ان کی امت ہو کر کبھی خود کو اور کبھی بچوں کو بددعا دے دیتے ہیں. اور حضور اکرم ص کی شان دیکھئیے کہ معراج شریف کا شرف حاصل ہوا. سبحان اللہ.
بھائیوں اور بہنوں یہ دنیا کی تکالیف وقتی ہیں.
دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ ہے، تکالیف آئیں گی مگر اللہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں.
“میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں”.
برداشت کیجئے، کیونکہ بہتر دنوں کے لئے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے.?.