مفتی میرے تخیل میں
تحریر : امرینہ منیر
بائیس سال کی عمر میں اشفاق احمد کی کتاب زاویہ ہاتھ آئی اور اس کے بعد ممتاز مفتی کی کتاب تلاش پڑھنے کا موقع ملا، جب یہ کتابیں پڑھنا شروع کیں تو ایسا محسوس ہو جیسے یہ میرے ہی لیے لکھی گئیں ہوں۔ تلاش کے بعد پڑھنے کے سفر جاری رہا اور رام دین کے بعد لبیک بھی پڑھ لی۔ لبیک کیا پڑھی میں حیران رہ گئی ، یوں محسوس ہوا جیسے یہ کتاب نہ صرف میرے ہی لیے لکھی گئی ہے بلکہ اس میں میری کیفیات بیان کی گئ ہیں۔
میں اس وقت کویت میں مقیم ہوں ، جب پاکستان گئی تو ممتاز مفتی کی دیگر کتب خریدنے کا ارادہ باندھا۔ کتابوں کی دکان پر پہنچی اور دکاندار سے علی پور کا ایلی مانگی ، پتا نہیں ان صاحب کے دل میں کیا آئی کہ انہوں نے علی پور کا ایلی کے ساتھ الکھ نگری بھی میرے ہاتھ میں تھما دی۔
علی پور کا ایلی پڑھتے پڑھتے میرے دل میں دیوانگی بڑھنے لگی اور یہ خواہش بڑھنے لگی کہ مجھے ممتاز مفتی سے ملنا ہے اور اللہ سے دعا کرتی رہی کہ کسی طرح میں ممتاز مفتی سے مل سکوں۔
ایک روز کی بات ہے کہ ممتاز مفتی میرے سامنے آ بیھٹے اور مسکرانے لگے ، مگر بولے نہیں بس مسکراتے ہی رہے۔۔۔۔ اور پھر علی پور کا ایلی کا ہر کردار میرے سامنے موجود تھا اور مجھے محسوس ہونے لگا میں اسی افسانے کا کردار ہوں۔ اس طرح میں دل مزید مفتی کی طرف کھچنے لگا جیسے وہ میرے ساتھی ہوں ، میرے دوست ہوں۔ پھر یک دم میرے دل میں خیال آیا میں ان لوگوں کا حصہ کیسے بن سکتی ہوں۔۔۔۔ اور یہ سوچنے لگی اگر ان کی دوست نہیں تو نہ سہی ان کے گھر کی نوکرانی ہوتی مگر ان لوگوں کے ساتھ ہوتی۔ بس ایک بات ہے مجھے ممتاز مفتی، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ اپنے سے لگتے ہیں۔
مجھے لکھنے کو شوق ہے ، میں لکھتی ہوں اور اپنا لکھا مٹا دیتی ہوں۔ میں نہیں جانتی ایسا کیوں ہے ؟ مگر ایسا ہے۔ یہ کچھ سطریں ممتاز مفتی کے لکھ یار سیکشن کے لیے لکھیں کہ اپنی بات آپ لوگوں تک پہنچاؤں اور درخواست کروں کہ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے۔