واصف علی واصف سے وابسطہ مافوق الفطرت واقعات
﷽
واصف علی واصف اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں لکھتے ہیں کہ، لوگ کتنے سادہ لوح ہیں کہ کسی کے روحانی مقام کے بارے میں افواہیں سن کر ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہیں کسی ڈبا پیر کے ، کہیں کسی کے فریب میں۔۔۔۔۔ حالانکہ تو نے یہ کھول کے بتایا ہے کہ عاقبت اپنے اعمال پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے کے مقام پر نہیں۔
واصف صاحب کی بات کے بعد ان کے ایک قریبی مرید کی زبانی کچھ باتیں سنیں اور فیصلہ کریں کہ واصف صاحب کیا تھے اور انہیں کیا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
کتاب فرمائش کے صفحہ 123 پر درج ہے کہ واصف صاحب بہت زیادہ سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے۔ ہر وقت سگریٹ سلگاگئے رکھتے یعنی چین سموکرہوا کرتے تھے نیز چائے بھی کثرت سے استعمال کیا کرتے تھے۔
صفحہ 124 پر درج ہے کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے آپ کے پھیپھڑوں پر اثر ہوا اور دسمبر 1986 میں آپ پر بیماری کا شدید حملہ ہوا۔
سگریٹ نوشی انسان کی صحت کے لیے مضر ہے اور بیمار ہو جانا بھی قدرتی امر ہے مگر سلطان محمود آشفہ صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انہوں نے عملیات سے یہ معلوم کیا کہ کسی عیسائی عامل کے جادو کی وجہ سے واصف صاحب کی طبیعت خراب تھی۔ اس حوالہ کے بعد راقم اپنی اس بات کی ذمہ دراری سے مبرا یوں ہوئے:
“غالباً عیسائی عامل کی مخاصمت ایک بہانہ ہی بنی۔ اگر غور کیا جائے تو گرانی صحت ایک لحاظ سے کوچ کا نقارہ ثابت ہوئی”۔
یہ کہہ دینے کے بعد بھی مصنف نے جادو ٹونے کی حمایت جاری رکھی۔ وہ کہتے ہیں کہ:
“کسی نا بلد نے واصف صاحب کے حوالے سے جنات جیسی مخلوق کے وجود اور ان کے اثر و نفود کی نفی کی ہے جو کہ درست نہیں”
اسی ضمن میں واصف صاحب کے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ واصف صاحب فرماتے ہیں، ” ایک ایسا سخت عمل ہوتا ہے کہ ایک ہنڈیا ہوا میں اڑتی ہوئی آتی ہے اور جہاں وہ گرتی ہے وہاں سب کچھ تباہ کر دیتی ہے“۔
مزید واصف صاحب کی محفل کے بارے میں صفحہ 130 پر لکھتے ہیں یہ ایک ایسا شخص محفل میں آیا جس کے قبضے میں جنات تھے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ واصف صاحب کی محفل کو دھرم بھرم کر دے گا۔ واصف صاحب نے اسے سنجیدہ نہ لیا اور اس نے حاضرین محفل کو اپنے سحر میں لے لیا اور وہ ہنستے جاتے۔ بقول مصنف واصف صاحب نے انہیں سمجھایا کہ اُن کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں اور وہ حاضرین کو سحر سے آزاد کر دے۔
اس کے بعد مصنف فرماتے ہیں کہ واصف صاحب کی محفل میں ایک ایسا شخص آیا کرتا تھا جو کہ جن پیر کا معتقد بن چکا تھا اور ایک ایسی کیسٹ بھی دی جس میں جنات وغیرہ کی آوازیں تھیں۔ واصف صاحب نے اس “جن پیر” کی ڈھیروں مذمت کی۔ اس کے بعد واصف صاحب، مصنف اور دیگر حاضرین نے ایک قرارداد بھی پیش کی جس میں کہا گیا کہ،
“جنوں کو حکم ہے واصف صاحب کا کہ انسانوں کی بستیوں سے دور چلے جائیں اور انسانوں کو حکم ہے واصف صاحب کا کہ وہ جنوں سے تعلق نہ رکھیں”
مصنف نے کئی ایک پیروں کا تذکرہ کیا ہے جو کہ واصف صاحب کی قمیص سے اور کبھی الہام سے یہ معلوم کر لیتے کہ واصف صاحب جادو کے اثر میں ہیں جبکہ مصنف خود اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ ان کی طبیعت کا خراب ہونا قدرتی امر تھا۔ واصف صاحب کے چاہنے واالے ان کے لیے دم کیا ہوا پانی لاتے اور حیلے کرتے۔
واصف صاحب اپنے چاہنے والوں کی بات مان لیا کرتے مگر ایک دن واصف صاحب نے فرمایا، ص ٍ 137 ” کوئی انسان جتنے بھی بڑے مقام کا ہو، آپ کی اس کی خدمت کرو، اس کا خیال کرو کیونکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے قانون لاگو ہوتے ہیں”۔
اس بات کا حوالہ دینے کے فوراً بعد ہی مصنف نے پھر جادو کی بات شروع کر دی، کہتے ہیں واصف صاحب نے ریاض احمد چوہدری کو کہا کہ عبدالصمد خان صاحب رح کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کے مجھ پر جادو ہوا ہے۔
مصنف کا اپنا بیان دوبارہ ملاحظہ ہو: “غالباً عیسائی عامل کی مخاصمت ایک بہانہ ہی بنی۔ اگر غور کیا جائے تو گرانی صحت ایک لحاظ سے کوچ کا نقارہ ثابت ہوئی”۔
ص 292 پر کہا گیا کہ واصف صاحب کی محفل میں بیٹھنے سے ہی جنات کا سایہ، بھوت پریت، طلسم کے اثرات ضائع ہو جاتے۔
مگر بقول مصنف واصف صاحب نے اپنے عزیز کوکہا کہ ریاض احمد چوہدری کو کہا کہ عبدالصمد خان صاحب رح کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کے مجھ پر جادو ہوا ہے۔
واصف صاحب کہ بارے میں کہا گیا کہ وہ کہتے ہیں ص 267:
“ہم نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے کہ چالیس دن اور چالیس رات نہ کھایا نہ پیا، نہ ہی سویا۔ میں نے خود دیکھا ہے۔۔۔۔ اور پھر فرمایا میں ہی ہوں۔۔ اس میں کیا مشکل ہے”
واصف صاحب کی غیر مبطوعہ تحریر میں ہے:
“اقبال جو کام ادھورا چھوڑ گیا وہ مجھے کرنا پڑ رہا ہے”۔
مصنف بتاتے ہیں کہ واصف صاحب علاج کے لیے بیرون ملک گئے تو علاج مکمل کیے بغیر واپس آگئے چونکہ انہیں خدشہ تھا کہ وہ ڈاکٹر ان کی جان کے دشمن ہیں ، اس کے برعکس ص 300 پر بتایا گیا کہ ایک لڑکی کی شادی واصف صاحب نے اپنے مرید سے کی اور غائبانہ طور پر اس بات سے آگاہ تھے کہ وہ ماں نہیں بن سکتی۔ نعد ازاں ڈاکٹر نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ علاج ایک سال کے بعد شروع ہو گا مگر ڈاکٹر کے علاج سے پہلے ہی واصف صاحب کے روحانی کرم سے وہ نہ صرف ان کے ہاں اولاد ہوئی بلکہ واصف صاحب کی دعا کے سبب اولاد نرنیہ ان کا مقدر ٹھہری۔
اب اس تحریر کے آغاز میں واصف صاحب کی کہی بات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ واصف صاحب مافوق الفطرت باتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دنیا میں دنیا ہی کے قانون لاگو ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ واصف صاحب کی زندگی میں مافوق الفطرت واقعات شامل کر دینا چاہتے ہیں تا کہ ذاتی مفاد حاصل کر سکیں۔ اس تحریر نے کتاب کے چند ایک اوراق سے استفادہ کیا اور اس قدر تضاد منکشف ہوئے۔
اللہ سے دعا کہ ہے ہمیں حق بات کہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور سچ کو سمجھ کر مفاد پرستوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
آمین۔