کتاب : تلاش
باب 9 : کریش سولائزیشن
ٹرانسکرپشن : فرحین فرحان
پروفیسر احمد رفیق اختر
اس بات پر مجھے پروفیسر احمد رفیق اختر یاد آگئے جنکا مقصد حیات ہی ہارمنی پیدا کرنا اور نوکیلے کونے گول کرنا ہے۔ گذشتہ چند ایک برس میں مجھے چند ایک بزرگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ پروفیسر احمد رفیق طارق سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ وہ عام انسان کی طرح جیتے ہیں ۔ نہ لباس میں خصوصیت، نہ شکل وشباہت میں نہ ہی انداز میں نہ ہی برتاؤ میں۔
نہ جبہ نہ دستار، نہ گیسو نہ داڑھی، کلین شیو ہیں۔ چہرے پر مصنوعی وقار نہیں ہے، صرف ذہانت اور انسانیت ہے۔ بات میں “ہم” نہیں ۔ گلے میں “اہم” نہیں ۔ انداز میں اجلا پن نہیں۔ دوسرے کو میلا ہونے کا احساس نہیں کشف نہیں چلاتے۔ فراست ہے لیکن جتاتے نہیں۔ اختلاف رائے کو کاٹتے نہیں، برداشت کرتے ہیں۔طبیعت میں بڑا “سنس آف ہیومر” ہے۔ صاف لگتا ہے کہ QURA دیکھنے کی حس موجود ہے لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ خود نمائی نہیں کرتے۔ دعوی نہیں کرتے۔ پیری مریدی نہیں کرتے۔ بیعت کی دعوت نہیں دیتے۔ مسئلہ مسائل نہیں چھانٹتے۔ قدریہ سلسلہ کے مشاہیر کو استاد مانتے ہیں۔ لیکن جو تصوف پرموٹ کرتے ہیں، وہ انہوں نے خود قرآن سے اخذ کیا ہے۔ لوگوں کو پڑھنے کے لئے اسما دیتے ہیں۔
مجھے بھی دیے۔ میں نے کہا، پروفیسر صاحب ! یہ ظلم نہ کرو۔ میں تو اللہ کا ادنی منشی ہوں، عبادت میرا کام نہیں۔ سیانے کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجے۔
کہنے لگے: ” یہ ضروری ہے، تین ماہ کے لئے پڑھو ”
میں نے کہا ” تین ماہ بعد کیا ہوگا ”
وہ مسکرا دیئے۔
میں نے تین ماہ تسبیح چلائی۔ میرا خیال تھا تین ماہ بعد میرے دائیں ہاتھ سے آواز آئے گی، بولو میرے آقا ! میرے لیے کیا حکم ہے؟ میں تیرے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ لیکن کوئی آواز نہیں آئی۔
پروفیسر کا کہنا ہے، اسلام توازن کا نام ہے۔ اپنے اندر ہارمنی پیدا کرنے کا نام ہے۔ نہ لاگ ہو نہ لگاؤ۔
حضور ﷺ نے فرمایا تھا ” لوگو ! حد میں رہو، حدیں نہ توڑو۔”
میں نے پوچھا ” پروفیسر ! آپکا شغل کیا ہے؟”
بولے” تحلیل نفسی کرتا رہتا ہوں۔ وہ کونے جو دوسروں کو چبھتے ہیں، انہیں گول کرتا رہتا ہوں۔”
میاں بیوی کا بھی یہی مسئلہ ہے، چھبتے کونے گول کرتے رہو تو Domestic Happiness حاصل ہوتی ہے۔
صاحبو ! Domestic Happiness سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔
ایک دن میرے بابا نے مجھ سے پوچھا ” مفتی ! دنیا میں جنت حاصل کرنا چاہتے ہو؟”
میں نے کہا ” بلکل چاہتا ہوں ۔آگے ملے نہ ملے ، یہاں مل جائے۔”
بولے” آسان سی بات ہے کہ بیوی کوئی بات کہے، جواب میں کہو ہاں جی۔”
صاحبو ! اس روز سے میں جنت میں رہتا ہوں۔
بے شک فیملی ایک عظیم درسگاہ ہے لیکن اہل مغرب نے آزادی کے جنون میں فیملی کی اہمیت کو قائم نہ رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ غلط فہمی عام ہو گئی کہ شادی محبت کا رشتہ ہے۔ شادی کے بعد کچھ دن تو محبت کی شوگر کوٹنگ قائم رہی، پھر ایک دوسرے کو چبھنے لگے تو قانون نے طلاق عام کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے خاوند سے دو بچے ہوئے، دوسرے سے ایک بیٹی اور تیسرے سے دو بیٹے۔ ان پانچوں بچوں کو گھر نصیب نہیں ہوا۔ ماں باپ نصیب نہ ہوئے۔ انھیں وہ محبت نصیب نہ ہوئی جو بچے کی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ طبعاً وہ اکھڑے اکھڑے رہے، رشتوں کے مفہوم سے ناواقف۔۔۔ (Un owned) سیلف سنٹرڈ (Self centred) پھر جنسی آزادی نے لٹیا ہی ڈبو دی۔ اہل مغرب کو احساس نہ ہوا کہ جنسی آزادی خودکشی کے مترادف ہے۔ وہ اسے Emancipation سمجھتے ہیں۔