کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : منیب احمد
دھرم بھرشٹ
1932ء میں جب دھرم سالہ کے گورنمنٹ مڈل سکول میں پڑھاتا تھا تو مجھے چھوت کے صحیح معنوں کا علم ہوا. دھرم سالہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں ہندو اکثریت تھی. سکول میں صرف دو لڑکے مسلمان تھے. میری مشکل یہ ہے کہ میں بہت پیاسا ہوں. ہر دو چار گھنٹوں کے بعد مجھے پانی کی طلب ہوتی ہے. ایک روز جب جماعت کا واحد مسلمان لڑکا چھٹی پر تھا٬ میں نے ایک ہندو لڑکے سے کہا کہ مجھے ایک گلاس پانی لا دو. وہ سر جھکا کر کھڑا ہو گیا. میں نے اس سے پوچھا کہ تم پانی کیوں نہیں لائے؟ وہ بولا سر میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا.
میں نے اسے سمجھایا کہ میاں دھرم بھرشٹ تب ہوتا ہے جب تم میرے ہاتھ سے پانی پیو٬ مجھے پانی پلانے سے نہیں ہوتا. میرے سمجھانے کے باوجود لڑکے نے پانی پلانے سے انکار کر دیا. سر ! میرا دھرم بھرشٹ ہوئے جائے. پھر دفعتاً بات میری سمجھ میں آ گئی کہ مسلمان اکثریت کے علاقوں میں مسلمان کے ہاتھ سے کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتا ہے لیکن ہندو اکثریت کے علاقے میں مسلمان کو کھانے پلانے سے بھی دھرم بھرشٹ ہوتا ہے.
تقسیم کے بعد پہلی مرتبہ جب میں بھارت کے دارالحکومت دلی میں گیا تو حیران رہ گیا. ارے یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ! کیا یہ دلی شہر ہے؟ میں کسی اور جگہ تو نہیں آ گیا. کیا ہندو بدل گیا ہے. نہیں٬ نہیں٬ یہ نہیں ہو سکتا٬ ہندو کبھی نہیں بدل سکتا. ہندو نے چھوت چھوڑ دی. کیا untouchables ختم ہو گئے. نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے. میرے سامنے دلی کے بازار میں ٹھنڈے پانی کی ریڑیاں چل رہی تھیں. ٹھنڈے پانی کا گلاس صرف ایک آنے میں اور ریڑی پر صرف ایک گلاس رکھا ہوا تھا. صرف ایک گلاس اور سبھی اس ایک گلاس میں پانی پی رہے تھے. میَں نے ایک معزز لالا جی سے پوچھا. میں نے کہا ٬ لالہ جی ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ بولے ٬ مہاراج ! دھرم اپنی جگہ، بیوپار اپنی جگہ۔