کتاب : تلاش
باب 13 : انوکھا شہنشاہ
ٹرانسکرپشن : سعیدہ سونی
کشف اور وہم
آج سے چھ سات سال پہلے کی بات ہے، میں بیمار پڑا تھا۔ ہسپتال میں داخل تھا، ان دنوں میں “الکھ نگری” لکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں الکھ نگری مکمل نہیں کر سکوں گا۔
انہی دنوں لاہور کی ایک صالح خاتون صغیرہ شیریں کا مجھے خط موصول ہوا۔ خط میں برسبیل تذکرہ انہوں نے اپنے مرشد شاہ صاحب کا ذکر کیا تھا۔ شیریں نے لکھا کہ شاہ جی بڑے صاحب کشف ہیں۔
میں نے جواب میں شیریں کو لکھا کہ اگر شاہ جی صاحب کشف ہیں تو ان سے پوچھ کر مجھے بتاؤ کہ کیا میں الکھ نگری مکمل کر پاؤں گا ؟
جواب میں شاہ صاحب نے اپنے ہاتھ سے مجھے لکھا کہ “الکھ نگری ہم نے مکمل شکل میں دیکھ لی ہے۔ ابھی آپ کو ایک اور کتاب تصوف لکھنی ہے۔”
جب الکھ نگری شائع ہوگئی تو ایک سال بعد میں لاہور گیا۔ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کہا شاہ صاحب یہ آپ نے کیا لکھ دیا ہے کہ ابھی میں نے تصوف پر کتاب لکھنی ہے۔ جناب والا ! میں تو ایک منہ زبانی مسلمان ہوں۔ اسلام کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا۔ دنیاوی علوم میں ادھ پڑھ ہوں لیکن اسلام میں ان پڑھ ہوں۔ میں تصوف پر کیا لکھ سکتا ہوں۔
شاہ صاحب سمجھاتے رہے کہ انسان یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، حالات بدل جاتے ہیں، رخ بدل جاتے ہیں، مفہوم بدل جاتے ہیں۔
میں نے اپنی رٹ لگائے رکھی۔
آخر وہ تنگ آ کر بولے ” دیکھو میاں ہمیں تو جو نظر آیا ہم نے بتا دیا۔ اب تمہاری مرضی ہے مانو یا نہ مانو لکھو نا لکھو۔”
شاہ صاحب سے ملنے کے بعد میں نے اپنے دل کو تسلیاں دیں۔ میں نے سوچا کشف برحق، لیکن آخری فیصلہ تو اللہ کا ہوتا ہے۔ finality rests with God.
کشف مستقبل کی ادھوری جھلکی ہوتی ہے لہٰذا کشف کو اس حد تک اہمیت دینا مناسب نہیں۔ بہرحال میں نے بڑی محنت سے اس بات کو ٹال دیا، ذہن سے نکال دیا اور اپنے کام میں میں لگ گیا۔