Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 10 : گلاب کا پھول

ٹرانسکرپشن : فبیہا احمد

ڈر اور پیار

ایک روز میں نے اپنے گرو سے کہا۔ ایک بات پوچھوں؟ بولے پوچھو۔میں نے کہا اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں مجھ سے ڈرو۔
بولے، اچھا ! پھر ؟
میں نے کہا، پتہ نہیں کیوں مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا، حالانکہ میرا ایمان ہے اللہ کے سوا کوئی قوت نہیں ہے، کوئی خوف نہیں ہے، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ بچوں کی طرح معصوم ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے وہ ھمارے لیے بے پناہ ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔ اتنا دیالو ہے کہ دینے کے لیے بہانے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔
وہ ہنسے، بولے، مفتی ! تم زیادہ سوچا نا کرو، یہ جو سوچیں ہیں یہ گھمن گھیریاں ہیں ۔ ڈوبنے دیتی ہیں نا تیرنے۔ بہت سے بھید ایسے ہیں جو سامنے دھرے ہیں مگر ہمیں دکھتے نہیں چونکہ باری تعالی نہیں چاہتے کہ وہ کھل جائیں۔
میں نے کہا، عالی جاہ ! میں تو ڈرنے کی بات پوچھ رہا تھا کہ مجھے اس سے ڈر نہیں لگتا، اس پر پیار آتا ہے۔
بولے، جنہیں ڈر لگتا ہے، وہ بھی خوش قسمت ہیں، جنہیں پیار آتا ہے وہ بھی خوش نصیب ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے چڑ کر کہا۔
مسکرا کر بولے، ڈر بھی ایک تعلق ہے محبت بھی ایک تعلق ہے۔مطلب تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ تعلق قائم رہے۔ سارا کھیل تعلق کا ہے۔ اگر اللہ سے تعلق قائم ہے تو سب اچھا۔ ہماری سرکاری فوج ایکسرسائیز کیا کرتی ہے نا ! آدھی فوج ایک طرف ہوجاتی ہے آدھی دوسری طرف، آدھی سرکاری، آدھی باغی۔ پھر وہ آپس میں باقاعدہ جنگ کرتے ہیں۔ چاہے باغی فوج جیت جائے، چاہے سرکاری۔ ہر صورت میں فتح سرکار کی ہوتی ہے۔ زیادہ سوچوں میں نا پڑو، اس رام لیلا کو دیکھو، دیکھتے رہو۔ یہ جو رنگ ہیں، سب سرکاری ہیں۔ ایک ہی پرزم (prism ) سے نکلتے ہیں۔

پیار

ایک روز میں نے اپنے گرو سے کہا۔ ایک بات پوچھوں؟ بولے پوچھو۔میں نے کہا اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں مجھ سے ڈرو۔
بولے، اچھا ! پھر ؟
میں نے کہا، پتہ نہیں کیوں مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا، حالانکہ میرا ایمان ہے اللہ کے سوا کوئی قوت نہیں ہے، کوئی خوف نہیں ہے، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ بچوں کی طرح معصوم ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے وہ ھمارے لیے بے پناہ ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔ اتنا دیالو ہے کہ دینے کے لیے بہانے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔
وہ ہنسے، بولے، مفتی ! تم زیادہ سوچا نا کرو، یہ جو سوچیں ہیں یہ گھمن گھیریاں ہیں ۔ ڈوبنے دیتی ہیں نا تیرنے۔ بہت سے بھید ایسے ہیں جو سامنے دھرے ہیں مگر ہمیں دکھتے نہیں چونکہ باری تعالی نہیں چاہتے کہ وہ کھل جائیں۔
میں نے کہا، عالی جاہ ! میں تو ڈرنے کی بات پوچھ رہا تھا کہ مجھے اس سے ڈر نہیں لگتا، اس پر پیار آتا ہے۔
بولے، جنہیں ڈر لگتا ہے، وہ بھی خوش قسمت ہیں، جنہیں پیار آتا ہے وہ بھی خوش نصیب ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے چڑ کر کہا۔
مسکرا کر بولے، ڈر بھی ایک تعلق ہے محبت بھی ایک تعلق ہے۔مطلب تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ تعلق قائم رہے۔ سارا کھیل تعلق کا ہے۔ اگر اللہ سے تعلق قائم ہے تو سب اچھا۔ ہماری سرکاری فوج ایکسرسائیز کیا کرتی ہے نا ! آدھی فوج ایک طرف ہوجاتی ہے آدھی دوسری طرف، آدھی سرکاری، آدھی باغی۔ پھر وہ آپس میں باقاعدہ جنگ کرتے ہیں۔ چاہے باغی فوج جیت جائے، چاہے سرکاری۔ ہر صورت میں فتح سرکار کی ہوتی ہے۔ زیادہ سوچوں میں نا پڑو، اس رام لیلا کو دیکھو، دیکھتے رہو۔ یہ جو رنگ ہیں، سب سرکاری ہیں۔ ایک ہی پرزم (prism ) سے نکلتے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button