Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 5 : آٹے میں پانی، دودھ میں سفیدی

ٹرانسکرپشن : محمد مزمل

کروسیڈی پروپیگنڈا


کروسیڈز (صلیبی جنگیں) کے زمانے میں جب مسلمانوں نے حیرت انگیز فتوحات حاصل کی تھیں تو عیسائی پادریوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبردست پرو پیگنڈا مہم چلائی کہ ایک مسلمان مجاہد دس عیسائی سپاہیوں پر بھاری ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ لوگ انسان نہیں درندے ہیں، ظالم ہیں، بے رحم ہیں، سفاک ہیں۔
مسلمانوں نے سپین پر سالہا سال حکومت کی تھی۔ مؤرخ مسلمانوں کی حکومت کو آئیڈیل دور قرار دیتے ہیں لیکن عیسائی پادریوں نے مسلمان حکمرانوں کے اس پہلو کو ہمیشہ بلیک آؤٹ رکھا اور مجاہدوں کی بے رحمی اور تشدد کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔
عیسائی پادری اور راہب اسلام کے سخت مخالف تھے، اس لیے کہ عیسائیت نے راہبوں اور پادریوں کو ایک متحرک مقام بخش رکھا تھا۔ یہ مقام اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ یہ بارہا عیسائی بادشاہوں سے ٹکر لینے سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔ اس کے برعکس اسلام رہبانیت کے حق میں نہیں تھا۔ اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا تھا اور دینی علماء اور مولویوں کو کوئی اعزازی مقام نہیں دیا تھا۔ ان کی حیثیت عام مسلمانوں جیسی تھی۔
عیسائی راہب اور پادریوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے بارے میں یہ مشہور کیا کہ وہ تنگ دل ہیں، وسعت قلب سے محروم ہیں،
Intorerant ہیں۔
یہ عیسائی پادریوں نے تو اسلام کے خلاف پرو پیگینڈا کر رکھا تھا۔ لیکن ہمارے مولوی اور ملا اپنے رویے سے غیروں کے پروپیگینڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب امریکا اور مغربی ممالک ہمیں فنڈامینٹلسٹ کے طعنے دے رہے ہیں حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جتنی رواداری اسلام میں ہے، کسی اور مذہب میں نہیں۔ حکم ہے کہ غیر مسلموں کو اتنی ہی آزادی دی جائے جتنی مسلمانوں کو حاصل ہے۔ ان کے مذہب کا احترام کیا جائے۔ ان کی عبادت گاہوں کا احترام کیا جائے۔
کہتے ہیں جب حضرت عمر فاتح کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوئے اور نماز کا وقت آیا تو سوال پیدا ہوا کہ نماز کہاں ادا کی جائے۔ مسلمانوں نے عیسائیوں سے بات کی۔ عیسائیوں نے کہا: ’’بے شک آپ ہمارے گرجے میں نماز ادا کر لیں۔‘‘
حضرت عمر نے گرجے میں نماز پڑھنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا: ’’اگر میں نے ایسا کیا تو لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں نے زبردستی عیسائیوں کی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا احترام کریں۔‘‘
سپین میں الحمرا کی دیواروں پر جگہ جگہ یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:
‘’اللہ کے سوا کوئی غالب فاتح نہیں ہے۔ ‘‘
مسلمانوں نے سپین پر حکومت کی تو یہی ان کا ماٹو رہا۔ قصہ یوں ہے کہ جب مسلمانوں نے ہسپانیہ کو فتح کرلیا اور غرناطہ کا مسلمان حکمران شہر میں داخل ہوا تو چاروں طرف سے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور اسے ’’الغالب‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس پر حکمران نے جواب دیا کہ میں فاتح یا غالب نہیں ہوں، صرف اللہ کی ذات فاتح اور غالب ہے۔
اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کیوں کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں رواداری نہیں؟ وہ Intolerant ہیں۔
مجھے یاد ہے، پرانے زمانے کے بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ اسلام تو ایک آسان سا سادہ سا طریقہ ہے۔ جیو اور جینے دو، سکھی رکھو اور سکھی رہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ سچے دل سے مانو کہ اللہ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ قادر مطلق ہے اور محمد ﷺ، اللہ کے آخری پیغمبر ہیں۔
بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ یہ تو ایوان اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق پورے کرو۔ لوگوں کی خدمت کرو، بانٹ کے کھاؤ، اپنی آمدنی میں ایک حصہ غریبوں کے لیے وقف کر دو۔
ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے حضور سربسجود ہوا کرو اور اگر توفیق ہو تو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں حاضری دو اور حج ادا کرو۔
میں نے ایک بزرگ سے پوچھا: ’’جناب والا ! اگر اسلام کے یہ پانچ رکن ہیں، پھر تو یہ واقعی بڑا سادہ اور آسان مذہب ہے۔‘‘
’’بالکل!‘‘ وہ بولے۔
’’سب سے اہم رکن کون سا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
بولے: ’’ہم تو یہ سمجھتے ہیں اسلام خدمت خلق سے شروع ہوتا ہے اور خدمت خلق پر ختم ہوجاتا ہے۔‘‘

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button