کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : ایمان گل
شر کا پتلا
پتا نہیں ہمارے دینی راہبر انسان کو شر کا پتلا کیوں سمجھتے ہیں۔ گناہ میں لتھڑا ہوا، راستے سے بھٹکا ہوا۔
صاحبو اگر آپ مانتے ہیں کہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان میں اپنی روح پھونکی ہے اور کاٸنات کو تسخیر کرنا اس کا مقدر ہے تو انسان شر کا پتلا نہیں ہو سکتا۔ میری دانست میں جس روز انسان میں خیر کی نسبت شر کا عنصر بڑھ گیا تو یہ زندگی، یہ دنیا ختم ہو کر رہ جاۓ گی۔ یہ دنیا بنی نوع انسان کے خیر کے جزبے کے زور پہ چل رہی ہے۔ کہتے ہیں جب داتا صاحب نئے نئے لاہور میں آۓ تو کچھ روز قیام کے بعد شہر کا جائزہ لینے کے لیے باہر نکلے۔ جب وہ گھوم پھر کر واپس آۓ تو استغفار پڑھ رہے تھے۔
کسی نے پوچھا، آپ استغفار کیوں پڑھ رہے ہیں؟ کہنے لگے میں حیران ہوں کہ یہ شہر غرق کیوں نہیں ہو جاتا۔ اتنی گندگی اور غلاظت ہے یہاں کہ اللہ معاف کرے۔
ایک ماہ کے بعد داتا صاحب پھر گھومنے پھرنے کے لیے باہر نکلے۔ واپس تو سبحان الله، سبحان الله ورد زبان تھا۔ کسی نے پوچھا تو بولے، اس شہر میں اتنی خیر ہے، اتنے برگزیدہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالی ہمیشہ کے لیے اس شہر کو آباد رکھے۔
صاحبو اس دنیا اور زندگی کو اوپر سے دیکھیں تو شر ہی شر نظر آتا ہے۔ یہ زندگی سمندر کے مترادف ہے۔ اوپری سطح پر مدوجزر ہوتی ہے، طوفان چلتے ہیں، چھینٹے اڑتے ہیں، جھاگ پیدا ہوتی ہے لیکن نچلی سطح پر سکون ہی سکون، مسلسل گہرا سکون رہتا ہے۔ ایسے ہی ہیومن سوسائٹی میں اوپری سطح پر شر کے چھینٹے اڑتے رہتے ہیں۔ نیچے خیر کا سکون ہی سکون ہوتا ہے۔
صاحبو ! گناہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جرم کرنا۔ جرم کرنے کے لیے فرد کو اپنے سیلف سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اپنے اندر غصے کی بھٹی جلانی پڑتی ہے۔ انتقام کی آگ کو ہوا دینی پڑتی ہے۔ نفرت کی دھارا تیز کرنا پڑتی ہے۔ یعنی ایک جنونی کیفیت پیدا کرنی پڑتی ہے۔
ایسے ہی گناہ ہے۔ مثلاً آپ کو جھوٹ بولنا ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں۔
میں عادی مجرموں کی بات نہیں کر رہا ، عام افراد کی بات کر رہا ہوں۔
صرف زبان جھوٹ بولتی ہے۔ باقی سارے اعضاء زبان کا ساتھ نہیں دیتے۔ الٹا وہ احتجاج کرتے ہیں کہ جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، بسا اوقات زبان بھی ہکلانے لگتی ہے۔
کسی سے بدسلوکی کرنا، دھوکہ دینا، کوئی آسان کام نہیں۔ اگر فرد دن میں 50 کام کرتا ہے تو ہو سکتا ہے ان میں دو کام شر کے تحت کیے جائیں۔ باقی 48 کاموں میں خیر ہی خیر ہوتی ہے۔
ہمارے علماۓ دین عام مسلمانوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس کے ساتھ ان کی ذاتی اہمیت وابستہ ہے۔
وہ دل کی گہراٸیوں میں عام مسلمانوں کو بھیڑیں سمجھتے ہیں اور خود کو رکھوالے۔
ذہنی طور پر ان میں ہم آہنگی نہیں رہی۔ وہ بٹ کے ایک سے دو ہو چکے ہیں۔
باہر والا کچھ کہتا ہے اور اندر والا کچھ اور۔