کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : عائشہ چوہدری
کھچڑا کلچر کا جھکڑ
عالی جاہ ! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کوک، کلاشنکوف، پاپ اور ڈش انٹینا تہذیب کا جھکڑ چل رہا ہے، جس سے دنیا بھر کے نوجوان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، یہ جھکڑ اہل مغرب کا چلایا ہوا ہے اور یہ جھکڑ اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔ آپ کا یہ خیال سراسر تعصب پہ مبنی ہے ۔ اس جھکڑ کی وجہ سے تو تمام یورپی ممالک خود زچ ہوئے بیٹھے ہیں۔ سوچ رہے ہیں کہ کس طرح mass culture یعنی کھچڑا کلچر کی دھول سے خود کو بچائیں کیونکہ انکا اپنا کلچر اس دھول کی تہہ تلے دب کر رہ گیا ہے ۔
عالی جاہ ! یقین کیجیے ، آج کے نوجوان جو اس جھکڑ کی زد میں آئے ہوئے ہیں، خود مظلوم ہیں۔ بالکل ایسے جیسے برسات میں چیونٹوں کو پر لگ جاتے ہیں اور وہ شمع کے گرد چکر لگانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں ۔
ممکن ہے یہ جھکڑ خود قدرت نے چلایا ہو اور اس کا کچھ مقصد ہو۔
صاحبو ! قدرت بڑی چالاک ہے۔ سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے تو ٹیڑھی انگلی استعمال کرتی ہے۔ ایکشن سے کام نہ چلے تو ری ایکشن سے چلاتی ہے۔ ہمارے ایک مزاحیہ شاعر تھے، نذیر شیخ۔ ذات کے سائنسدان تھے لیکن کیا خوب مزاح لکھتے تھے کیوں کہ تھے صاحب نظر۔
انہوں نے اس جھکڑ پرایک نظم لکھی ہے۔ علامتی نظم ہے۔ آندھی کے عنوان سے لکھتے ہیں۔
کھڑکی کھڑکے سرکی سرکے پھڑکے روشندان
ناکہ بندی کرتے کرتے گھر سب ریگستان
ٹوٹے پھوٹے چھپر آئیں گھٹتے گھٹتے سانس
پیروں سے چمکادڑ چمٹے سر پر کھڑکیں بانس
جھاڑو جھاڑن موج منائیں ان کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج
درہم برہم سب تصویریں طرفہ تر احوال
مرزا غالب الٹے لٹکیں سجدے میں اقبال
چھت پر ہم جو بستر ڈھونڈیں عقل ہماری دنگ
کھاٹ بچاری اڑن کھٹولا بستر دور پتنگ
لڑکا لڑکی قسما قسمی جیون جیون ساتھ
جھکڑ ایسا تھپڑ مارے دونوں چھوڑیں ہاتھ
دائیں موڑو بائیں جائے موٹر کھائے جھول
آندھی سیدھی راہ بتائے دنیا ڈانواں ڈول
منزل غائب رستہ اندھا کیسے مانے بات
تانگے والا چابک مارے گھوڑا مارے لات
بکھری بکھری داڑھی دیکھی اڑتی اڑتی مونچھ
جتنا دابیں پنکھ پکھیرو اتنی اچھلے پونچھ
ساڑھی کھینچے چولی جھپٹے دھوبی باندھے پوٹ
پنکھ لگا کر اڑتے جائیں لہنگا پیٹی کوٹ
اڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چھڑائیں رخصت ہو دستار
دنیا ساری بھوت بنی ہے گورا کالا ایک
بنئے نے جب دھنیا تولا مرچ مسالہ ایک