کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : عائشہ چوہدری
میرے راہبر بچانا نہیں جانتے
یقین جانئے ! ہم مغرب زدہ نوجوان اس جھکڑ کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ علمائے دین کا فرض ہے کہ ہمیں بچائیں ۔ دقت یہ ہے کہ علمائے دین رد کرنا جانتے ہیں، موردالزام ٹھہرانا جانتے ہیں، تنقید کرنا جانتے ہیں، بچانا نہیں جانتے۔ ان میں مشنری سپرٹ نہیں ہے۔مشنری سپرٹ وعظ کرنے، تقریریں جھاڑنے، سرزنش کرنے میں نہیں ہوتی بلکہ جذبۂ ہمدردی سے خدمت کرنے میں ہوتی ہے۔ مجھے اس جھکڑ سے بچانے کے لیے وہ کہیں گے، دیکھو یہ کافرانہ پہناوا چھوڑ دو، داڑھی رکھ لو اور باقاعدہ پانچ وقت نماز پڑھا کرو۔
ہمارے راہبر کتنے معصوم ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہم نماز کی عظمت کو مانتے ہیں۔ لیکن ہمارے راہبروں نے اسلام کو صرف نماز تک محدود کر رکھا ہے۔ حضور اعلیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں ، جو اسلام جیتے تھے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نماز کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، بہت کچھ۔
علمائے نفسیات کا کہنا ہے کہ راہبر اس لیے نماز کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ نماز مسجد کی طرف متوجہ کرتی ہے اور مسجد پہ مولوی صاحب حکمران ہے۔ مقصد انا کی تقویت ہے ، اجارہ داری کا حصول ہے۔ علمائے نفسیات کی یہ بات وزن رکھتی ہے۔
آج کے نوجوان کو اگر جھکڑ سے نکالنا مقصود ہے تو پہلے دل میں اسکے لیے ہمدردیاں پیدا کرو۔