بوڑھا افسانہ نگار.. تحریر :سہیل تاج
بوڑھا افسانہ نگار
میں نے سنا کہ ایک بوڑھا افسانہ نگار سامنے کی کچی بستی میں رہتا ہے جہاں وہ مدہم روشنی میں کہانیاں لکھتا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ایک عرصہ ہوا گھر سے نکلا نہیں۔ اس کے مہمان بھی تیسرے پہر آتے ہیں اود پھر کب چلے جاتے ہیں کسی کو معلوم نہیں ہوا تھا۔
یہ بھی سنا تھا کہ وہ ان لوگوں کی کہانیاں لکھتا تھا جو اب دنیا میں نہیں رہے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو مرنے کے بعد کچھ کہنا چاہتے تھے مگر ان کی سانسیں کچل دی گئیں تھیں۔ کوئی قتل ہوا تھا تو کسی نے خود کشی کی تھی۔ کچھ فسادات میں مارے گئے تھے تو کچھ کی روح یوں پرواز کر گئی تھی کہ انہیں موت کی وجہ معلوم نہ ہو سکی تھی۔
میں نے ارادہ کیا کہ آج رات تیسرے پہر بوڑھے افسانہ نگار سے ملا جائے۔
سردی میں اس کے جھونپڑی نما گھر کی جانب چل دیا۔ پاؤں ٹھنڈ سے جم رہے تھے مگر گردن پر پسینہ آ رہا تھا۔
دروازے پر دستک دینے لگا تو اس کا ایک پٹ وا تھا جیسے افسانہ نگار میرے انتظار میں تھا۔
اندر داخل ہوا تو بو کا بھبکا اٹھا۔ سامنے کرسی پر وہ بیٹھا تھا۔ اس کی لاش سٹر چکی تھی۔ سامنے میز پر اس کی کہانیوں کا مجموعہ تیار پڑا تھا اور قلم میں معمولی حرکت تھی جیسے ابھی ہاتھ سے چھوڑی ہو۔
س۔ت