لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_14

#حیات

پارٹ 14

بختاور کو ہوش آ چکا تھا ۔اس کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک آرام دہ بستر پر پایا ،اس کے ہوش میں آتے ہی زينب مارے خوشی کے اس سے لپٹ گئی وہ وجاہت کی چھوٹی بہن تھی۔پھر بھی اس کے حافظے میں بختاور اور اس کے والد حافظ صاحب کی دهندلی سی یادیں محفوظ تھیں ، بختاور اس کے اس رویے سے کافی حیران پریشان تھی ۔

تین چار اور معزز خواتین بھی اس کے آس پاس موجود تھیں ۔مرہم پٹی اس کی پہلے ہی کی جا چکی تھی ۔پر اس کی حیرانی ابھی بھی جوں کی توں تھی کہ وہ آواز کس کی تھی ؟یہاں اتنی دور پردیس میں کون اس کا اپنا تھا ،اور یہ عورت کون تھی ؟

وہ کھانا کھا چکی تو کسی نے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ان میں ایک تو وہی حسن تھا جس کے ساتھ وہ حویلی آئی تھی پر ساتھ آنے والے دوسرے شخص کو وہ نہیں جانتی تھی ۔

آنے والا پينتاليس سے پچاس کے درمیان تھا شائد اس کے مظبوط سراپے سے اس کی صحیح عمر کا تعین کرنا ممکن نہیں تھا۔سر کے اسی فیصد بال ابھی پختہ رنگت کے تھے صرف کانوں کے اوپر هلكی سی سفيدی کی جهلك تھی اور وہ اس کے سراپا کو اور با رعب بنا رہی تھی ۔

 چوہدری حسن کی جوانی میں اس بڑھتی عمر کے شخص کا عکس جهلكتا تھا ۔

یہ ،”وجاہت”تھا ،”وجی”،۔وجاہت اور زينب سے باتیں کرتے اسے لگا وہ پھر سے اپنے آبائی گھر کے کچے صحن میں بیٹھی ہے کیا کیا نہیں یاد آیا تھا ۔

پچھلے چھتیس گھنٹے کی بے پناہ اذیت کے بعد یہ وہ لمحے تھے جنہوں نے اسے سکون دیا تھا ۔اسے لگا وہ پھر سے اپنوں میں آ گئی ہے ۔

وجاہت اس کے سامنے بیٹھا تھا ،اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی اس نے بختاور کے سامنے ہر ميسر نعمت کے ڈھیر لگا دیے تھے ۔

ان دونوں سميت سب لوگ قدرت کی اس کاریگری پر حیران تھے کہ کیسے اللّه نے ان کو ملانے کے اسباب پیدا کئے تھے ۔گاؤں کا گاؤں اسے دیکھنے کو امڈ آیا تھا،اسے لگ رہا تھا وہ کوئی انتہائی پاکیزہ ہستی ہے جس کا ديدار گاؤں کے بچے بچے پر فرض ہو چکا تھا۔لوگ چوہدری وجاہت اور زينب کو اس وصل کی مبارکباد دے رہے تھے ۔

 بختاور نے اب بھی اپنے بیٹے کا پردہ رکھا اور یہی بتایا کہ وہ لاہور سے کراچی بیٹے سے ملنے آئی تھی پر سٹیشن پر کوئی اس کا سامان چرا لے گیا اور ایک آنکھ سے نظر نہ آنے کے باعث وہ گر گئی تھی اور اس کے کپڑے پھٹ گئے اور چوٹ لگ گئی ۔

سب نے بڑی آسانی سے اس کی سنائی کہانی پر یقین کر لیا سواے وجاہت کے ۔سب نے اسے صحت یابی تک اپنا مہمان رکھنے کا فیصلہ کیا ،جبکہ بختاور جلد از جلد لاہور جانا چاہتی تھی پر ان لوگوں کا خلوص اور محبت دیکھ کر چپ ہو رہی اور ایک خیال یہ بھی تھا کہ کہیں اس کی ابتر حالت دیکھ کر اس کا احد سلطان رنجیدہ نہ ہو جائے ۔

بڑے ہی عرصے بعد بختاور کو گاؤں کی یہ سہانی زندگی پھر سے ميسر آئی تھی ،ان پندرہ،بیس دنوں میں وہ گویا پھر سے جی اٹھی تھی ۔

وجاہت نے اسے بتایا کہ بختو کی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے کسی بنا پر گاؤں چھوڑ دیا تھا اور شہر جا بسے تھے اور پھر آزادی کے بعد جس کو جہاں آسرا ملا وہ وہیں کا ہو رہا ۔انہیں بھی جب زمین کے بدلے زمین ملی تو انہوں نے حیدر آباد اور سکھر کے قريب اس گاؤں میں سکونت اختیار کر لی اور کچھ لوگ لاہور اور اس کے نواح میں بس گئے ۔وجاہت نے بتایا کہ حشمت کی زندگی میں وہ دو بار اسے لاہور کے بڑے ہسپتال میں ملا تھا اور حشمت نے اس کی کافی مدد بھی کی تھی ۔پر چاہ کر بھی وجاہت بختو کو یہ نہ بتا سکا کہ اس نے گاؤں کیوں چھوڑا ؟وہ حشمت سے ملنے کبھی گھر کیوں نہ آیا ؟اور اس نے اپنی ساری جوانی تنہائی کے نام کیوں کر دی ؟یہ وہ راز تھا جس سے صرف اس کی بہن اور ایک دو قريبی سنگی واقف تھے ۔

آج بھی اس میں وہ دم تھا کہ جس کی طرف دیکھتا وہ مٹیار اس سے شادی کے لئے راضی ہو جاتی پر وہ تو اپنا سب کچھ کچی عمر میں ہی یک طرفہ محبت کے نام کر چکا تھا پھر اسے شادی سے کیا مطلب ؟

حسن اس کی چھوٹی بہن اور چوہدری افتخار کا بیٹا تھا اور ہو بہو اپنے ماموں وجاہت کا عکس تھا ۔دونوں ماموں بھانجا حال ہی میں ولایت سے لوٹے تھے ۔

اور پھر قسمت کا کھیل دیکھو کہ رب نے ان کا ملنا یوں طے کر رکھا تھا ۔

دوسری طرف احد کی ٹرینینگ جیسے ہی پوری ہوئی وہ خاموشی سے کراچی روانہ ہو گیا ۔سارے راستے وہ خوشی سے آنے والے وقت کا سوچ سوچ کر مسکراتا رہا کہ کیسے جب وہ پولیس کی وردی میں اپنی بےبے کے سامنے جائے گا تو وہ کیا سوچے گی ؟کیا کہے گی ؟کہیں مارے خوشی کے بے ہوش ہی نہ ہو جائے ،دل کی دھڑکن تو گویا تھم ہی جائے گی ۔سٹیشن اترتے ہی قریب کے ایک ہوٹل میں اس نے نہا دھو کر اپنی پولیس کی یونيفارم پہنی اور گاڑی میں سوار ہو کے بھائی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔یہ گاڑی اور ڈرایئور ملک صاحب کے کسی دوست نے بھیجا تھا۔احد جانتا تھا اس پر یہ نوازشیں ملک صاحب کی بیٹی شیریں کی بدولت تھیں۔ملک صاحب نے احد سے اپنی بیٹی کے رشتے کی بات کی تھی ،احد بھی شیریں کو پسند کرتا تھا پر کبھی اسکی اور اپنی حیثیت نہیں بھولا تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب خود شیریں نے اسے پسنديدگی کا اشارہ دے ڈالا۔اب وہ بےبے کو لے کر جلد از جلد لاہور لوٹ جانا چاہتا تھا تاکہ اپنی ہر خوشی اور کامیابی میں اپنی پیاری ماں کو شامل کر سکے۔

اس نے بڑی بیتابی سے زاہد بھائی کے دروازے پر دستک دی ۔

دروازہ کھولنے والے کے لئے وہ سچ میں دل کے دورے کا انتظام تھا ۔آدھا محلہ زاہد کے دروازے کے آگے تماشبین بنا کھڑا تھا کہ آخر ان کے گھر پولیس کیوں آئی ہے ؟احد نے دل ہی دل میں اس تماشے کے مزے لئے وہ چاہتا تھا کہ اس کی بےبے دروازہ کھولے اور اسے تارے لگی وردی میں دیکھے اور وہ اپنی بےبے کو اس ساری خلقت کے سامنے ایک زور دار سیلوٹ سے سلامی دے اور پھر اس کی بےبے اسے اپنے سینے سے لگا لے اور ایک دنیا یہ دیکھ لے اور سمجھ لے کہ ماؤں کے درجے کس قدر بلند ہوتے ہیں اور اس کی دعاؤں میں کس قدر رس ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اولاد کو فرش سے عرش تک کے درجے دلوا دیں۔ہر خواب کو تعبیر دے دیں ۔وہ چاہتا تھا اس کی ماں اپنی محنت ،صبر اور مشقت کا پھل سب کے سامنے فخر سے وصول کرے اور یہ سمجھ لے کہ آج سے اس کے اچھے دن شروع ہیں ۔

پر شائد اس کا سب سے اچھا دن آج نہیں تھا ۔

دروازے پر زوردار دستک سن کر زاہد اور حامد دونوں ہی ناشتہ چھوڑ کر غصے سے آنے والے کو سبق سکھانے خود دروازہ کھولنے آ گئے ۔پر جس تيزی اور غصے سے جھٹکے سے دروازہ کھولا گیا تھا اس سے دوہرا جھٹکا انہیں لگ چکا تھا ۔دروازے کے اس پار روشن چہرے ،مسکراتی آنکھوں ،چوڑے شانوں والا احد کھڑا تھا ۔زاہد اسے دیکھتے ہی اپنے ہی پیروں پر لڑكهڑا سا گیا ،اس کا کھلا منہ اور پھٹی آنکھیں چیخ چیخ کر اپنے دل اور دماغ کو اس بے یقینی کا گواہ بنا رہی تھیں ۔اسے لگا ابا جی پوری شان سے اس کے دروازے پر کھڑے ہیں ۔حامد کا بھی حیرانی سے کچھ ایسا ہی حال تھا ۔تبھی احد نے بھائی !کہہ کر زاہد کو خود سے لپٹا لیا ۔

جانے کتنے سالوں بعد دونوں بھائی ایسے گلے لگے تھے ۔پر زاہد ابھی تک سکتے کی سی کیفیت میں تھا ،گرمجوشی نام کو نہ تھی ۔بس اتنا ہوا کہ اسے یہ یقین آ گیا کہ یہ احد تھا ابا نہیں ۔اسی کفیت میں احد نے حامد کو گلے لگایا ۔احد کا مضبوط جسم ،اسے لگا کوئی چٹان اس کے سینے پر دھر دی ہو گویا ۔

تبھی حامد کی نظر اپنے دروازے پر جمع محلے داروں پر پڑی تو وہ گردن اکڑا کے بولا ،”ہاں بھئی !کیا تماشا دیکھ رہے ہو ؟کیا بارات کے ساتھ آے ہو ؟جو اب روٹی کھا کر جاؤ گے ؟دیکھ لیا نا بھائی ہے میرا بھائی ،چلو شاباش نکلو سب “۔ لوگ آنکھوں میں رشک و حسد لئے دائیں بائیں ہونے لگے ۔

احد صحن میں جا کر بیتابی سے بےبے کو آوازیں دینے لگا ۔اس کی دونوں بھابیاں بھی چولہا چوکا چھوڑ کے صحن میں آ نکلیں ۔تبھی بڑی بھابی طنز سے گویا ہوئی لگتا ہے تمہارے بھائی کو فلموں میں کام مل گیا ہے اور شوٹنگ سے سیدھا ادھر ہی آ نکلا ہے ۔

زاہد اپنی بیوی کی بات پر ایک دم چونکا ،”کیوں احد !کیا سچ میں ایسا ہی ہے ؟”

احد کا دل چاہا اپنے بھائی کی اس بات پر اس کی عقل کا ماتم مناے ۔،”وہ کیا ہے نا بھابی !جو پیدائشی فنكار ہوں آپ کی طرح ان کے لئے کیا فلم ،کیا نوٹنكی ،ان کے لئے تو ساری دنیا ہی مانو سٹیج ہے”۔ احد نے بھی گویا حساب برابر کیا ۔،”میں یہاں صرف اور صرف اپنی ماں کو لینے آیا ہوں ،کسی سے الجھنے نہیں ،بےبے !بےبے !کدھر ہیں آپ ؟”احد نے ایک بار پھر پورے گھر میں ماں کو ڈھونڈتے ہوے پکارا ۔

زاہد اور حامد نے بے چینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔احد نے سوالیہ نظروں سے ان دونوں کو دیکھا ۔

“اماں تو پچھلے مہینے ہی ناراض ہو کر لاہور واپس چلی گئی تھی،کیا وہ گھر نہیں آئیں ؟”

احد کے سر پر گویا کسی نے پہاڑ دے مارا ۔،”دیکھیں !بھائی میں اس وقت کسی بھی مذاق کو نہیں سہہ سکتا لہذا مجھے بتا دیں کہ ماں جی کدھر ہیں ؟” 

حامد کے دل کو کسی انجانے خطرے کی آہٹ سنائی دی ۔

حامد نے احد کو بتایا کہ اس رات وہ اور اس کی بیوی گھر سے چلے گئے تھے اور چند دن بعد جب واپس آے تو زاہد نے بتایا کہ بےبے کسی بات پر ناراض ہو کر لاہور واپس چلی گئی ۔احد کا دل برف جیسا سرد ہو گیا تو اگر بےبے یہاں سے چلی گئی تھی تو وہ لاہور کیوں نہیں پہنچی ؟کہیں اس کے ساتھ کچھ حادثہ تو نہیں ہو گیا ؟انجانے وسوسوں کے گہرے سایے اس کے دل کو گھیرنے لگے ۔

زاہد کی بیوی نے کہا کہ بےبے گھر سے خود ہی چلی گئی جبکہ زاہد کا کہنا تھا کہ وہ خود بےبے کو لاہور جانے والی گاڑی پر بیٹھا کر آیا تھا ۔

احد نے ہر جگہ سے پتا کروایا پر پچھلے کچھ ہفتوں میں کسی ایسے حادثے کی اطلاع وہ نہ پا سکا کہ جس کی بنا پر وہ اپنی بےبے کا کھوج لگا سکتا کہ آخر وہ کہاں ہے ؟یا اس کے ساتھ کیا ہوا ہو گا ؟

اس کا واپسی کا سفر بیحد تکلیف ده تھا ۔اسے لگا اس کی تو گویا دنیا ہی لٹ گئی ،ہر خوشی خاک میں مل گئی ۔

واپس آتے ہی اسے ڈیوٹی پر رپورٹ کرنا تھا ۔دو دن اسی بھاگ دوڑ میں گزر گئے ۔اس نے اپنے کچھ لوگوں کے ذمے یہ کام لگایا کہ لاہور اور کراچی سميت ہر بڑے سٹیشن پر بختو کی تصویر دکھا کر پوچھ گوچھ کریں ۔

ایک دن وہ گھر پہنچا تو گیٹ پر ہی چوکیدار نے مہمانوں کی آمد کی اطلاع دی ۔وہ کچھ بے دلی اور حیرانی سے بیٹھک میں داخل ہوا تو بےبے کو دیکھ کر بے اختیار اس سے لپٹ گیا ۔بختاور کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی وہ كملی بار بار بیٹے کی وردی پر ہاتھ پھیرتی اور پھر گلے لگ کر رو پڑتی ۔کمرے میں موجود ہر شخص اشک بار تھا ۔احد کی آنکھوں میں بھی جھڑی لگی تھی وہ بار بار پوچھتا ،”میری پیاری بےبے آپ کہاں چلی گئی تھیں میں نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا آپ کو ،آپکے بنا میری ہر خوشی ہر کامیابی ادھوری تھی “۔جب احد کو بختاور کی زبانی سارے حالات کا علم ہوا تو غصے اور صدمے سے اس کا برا حال ہو گیا ۔بختاور کی دوسری آنکھ کی نظر بھی ستر فیصد ختم ہو چکی تھی ۔جن آنکھوں کے بارے میں اس نے سوچا تھا کہ وہ کس قدر فخر سے اسے وردی میں دیکھیں گی ،نیا گھر دیکھیں گی وہی نا رہیں ۔بس انگلیوں کا لمس تھا جو محسوس کرتا تھا ، دھندلا سا دیکھتا تھا ،فخر کرتا تھا ۔

وجاہت بختاور کو لے کر پہلے ملک صاحب کی کوٹھی پہنچا تو پتا چلا احد تو بڑا آفسر لگ گیا ہے اور اسے سرکاری گھر بھی مل گیا ہے ۔پھر ملک صاحب خود انہیں لے کر احد کے گھر پہنچے اور ماں بیٹے کی ملاقات کروائی ۔بختاور شرمندہ سی بار بار بیٹے کو وضاحت دیتی کہ اس کا سامان جلد بازی میں زاہد کے گھر ہی رہ گیا تھا جس میں وہ ڈائیری بھی تھی جس پر احد نے ملک صاحب کا نمبر لکھ کر دیا تھا پھر گاؤں جا کر وہ مجبور ہو گئی کہ کیسے اكيلی زخمی حالت میں باقی کا سفر طے کرتی ۔اور احد خود میں شرمندہ کہ ماں کو حیران کرنے کے چکر میں ماں کا پتا نہ کیا اور اپنے بھائیوں کی فطرت جانتے ہوے بھی کیسے وہ انجان رہا ؟کیوں ان پر بھروسہ کر بیٹھا ؟

احد کو چوہدری حسن اور چوہدری وجاہت بہت اچھے لوگ لگے ۔اور خوشی بھی ہوئی کہ چلو اس بھری دنیا میں کوئی تو اس کی ماں کا بھی ہے ۔

بختاور کی واپسی کی اطلاع پاتے ہی حالات کی سن گن لینے دونوں بھائی فورا لاہور پہنچ گئے ۔جب تک ماں لا پتہ تھی دونوں بھائی خود غرض بن کے بیٹھے رہے اور اب جیسے ہی اس کے آنے کا پتا چلا تو آن پہنچے ۔

بختاور بیچاری پھر یہی سمجھ بیٹھی کہ شائد انہیں کوئی ہدایت پہنچ گئی ہے جبھی ماں سے معافی مانگنے آے ہیں ۔پر اس کی یہ خوش فہمی جلد ہی دم توڑ گئی ۔

مارے جلن اور حسد کے دونوں کی بری حالت تھی ۔احد کا گھر اور سرکاری گاڑی دیکھ کر ان کے کلیجے جل گئے ۔ادھر احد کو جیسے ہی ان کے آنے کی اطلاع ملی اس نے بھی سوچ لیا اب آر یا پار ۔ان کی جرات کیسے ہوئی ماں کے ساتھ ایسا برا برتاو کرنے گی ۔

جاری ہے……… جاری ہے…..

از قلم ،”عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button