دھند…………….احسن علی
دھند ایک دھڑکتی ہوئی زندہ کیفیت ہی تو ہے ، جو اپنے گداز لمس سے کسی بے حس بدن کے ظاہر و باطن کو چھو جائے _ سوچ کسی ٹہنی پر بیٹھی ایسی چڑیا کی مانند جم جائے جو اڑ تو سکتی ہے مگر وہیں بیٹھے ہوئے گزرے رنج و راحت کے لمحات پھر سے جینا چاہے ، ظاہری حالات ساکت ہو جائیں ، گردش_ ایام ٹھٹھر جائے ، بہتی عمر وقت کا گلا دبوچ لے ، یادیں اچھل پڑیں ، دیر و حرم کے جھگڑے گھورتے رہیں ، دکھ اور مسرتیں کسی اندھے کنویں میں گرتیں ہوئیں معلوم ہوں ، بس یہ کچھ کرنے کی نہیں صرف سوچنے کی گھڑی ہے ، کئی رنگوں میں رنگی یہ دھند انسان کی آنکھوں کو الگ الگ رنگوں سے آشانا کرواتی ہوئی ایک لہر ہے ،
اگر یہ سرد کہرے کی صورت اترے تو کہیں دور ایک بھولا بسرا عاشق اپنی بھیگی چھت پر ماضی کی گرم شال اڑھے پہروں ٹہلتا رہے ، بیتے زمانوں کے نقش ابھر آئیں ، کبھی اسے اپنا محبوب یوں نظر آئے جو اس کے سامنے باہیں پھیلائے کھڑا ہو تو کبھی اسے اپنی ہی بے بسی کے نوکیلے خار چبھنے لگیں ، تو کہیں کوئی مبتلا لڑکی اس کہرے کے ذائقے کو لمبے لمبے سانس کھینچے اپنے اندر انڈھیلنا چاہے ، کہرے کی یخ بستگی کو چھو کر محسوس کرنا چاہے ، کہیں کچھ بوڑھے اپنے بچوں کو آگ کے گرد حصار بنوائیں ،اور خود اپنی جوانی کی دھندھوں میں ٹہلنے نکل جائیں
کبھی یہ دھند بے موسم خیالوں پر اتر آئے تو
کوئی مزدور اپنی روزی روٹی کی جد و جہد میں اٹا ہوا سب کیفیات مسترد کر دے ، کہیں کوئی سیٹھ دولت کی دھند میں انسانیت بھلا دے تو کہیں پر کوئی آخرت سے بے خبر اسی دھند میں جادہ و منزل کھو بیٹھے ، یا کہیں یہ پنڈت ، ملا ، پادری اسی دھند میں کسی انجان کا بازو پکڑیں اور اپنی دھند بھی اسی پر مسلط کر دیں …….. مگر کہیں وہ یکتا خالق کسی دھند سے الجھتے ہوئے فقیر کی شاہ رگ میں اتر آئے یا آسمانوں سے کہیں پرے خلق کو دھند میں گمراہ دیکھ کر پکار اٹھے ، نکلو اپنی ہی بنائی اس دھند سے اور آو تھامو میری رسی کو کہ چھٹ جائے تمہارے اندر سے یہ غبار __ اور وہ کہرے کی ذد میں کسی ٹہنی پر بیٹھی چڑیا دھند کا سینہ چاک کئے نکل اٹھے اپنی ہی کھوج میں اور عرفان کی منزلیں چھو لے یا اپنی ہی گمراہی کی آنچ میں بھن کر بھسم ہو جائے ____!!!!!!