سرگوشی…………..عائشہ چوہدری
جب آنکھیں صدیوں سے لہو بہتی آنکھیں بنجر ہونے کو تھیں جب دل گیلی لکڑی کی طرح ادھ جلا دھواں دے رہا تھا ہے جب حلق میں الفاظ کی گرہیں پھندہ باندھ چکی تھیں۔۔ میں لڑکھڑاتے قدم اٹھاتی انجان رستوں پہ گرتی پڑتی چلی جا رہی تھی۔ سفر لمبا,رستہ نامعلوم,حالات ناموافق اور عمر کی نقدی بتدریج ختم ہوتے ہوئے مجھے کم سن نو خیز لڑکی سے پختہ عمر کی سخت مزاج ,ہٹ دھرم ,آدم بیزار عورت میں بدل چکی تھی ۔۔اردگرد کبھی فقرے کستے بدمست ہاتھیوں سے مردوں کا جمِ غفیر ہوتا کبھی سر سے پاؤں تک ٹٹولتی ,میرے رت جگوں کا حساب مانگتی میرے پیروں کے چھالوں سے بے نیاز میرے تنہا سفر کا حساب مانگتی عورتوں کی سرگوشیاں۔۔ وہ وقت جینے کا نہ تھا مر جانے کا تھا۔۔کان کسی میٹھی سرگوشی سے نا آشنا سیسہ اپنے اندر انڈیلتے اور وہی سیسہ کبھی زہر کبھی پتھر بنکر لبوں سے رستا رہتا۔۔ جانے کب کہاں کیسے تم اس راہ گزر پہ آن پہنچے۔۔ تمہاری ہر صدا کو میں ان سنا کرتی رد کرتی تم سے دور بھاگتی اور ہر بار تم پہلے سے زیادہ شدت سے ہر موڑ پہ ملتے ہر رستے پہ آ کھڑے ہوتے ۔۔ میرا نام لیتے ۔۔مجھے آواز دیتے۔۔کسی دیس بدیس کی قید شہزادی کا قصہ سناتے۔۔میں تم سے چھپتی بھاگتی پھرتی اور تم ہر رات میرے اندر پیار بھری سرگوشیاں کرتے ۔۔ وہ پیار بھرے الفاظ جو میرے لئے اجنبی ہو چکے تھے وہ خوشی جو مجھ پہ حرام ہو چکی تھی تم ہاتھ میں تھامے میرے آگے پیچھے پھرتے۔۔ آگے وقت کا زندان تھا اور پیچھے ہنستے مسکراتے ان دیکھے خوابوں کی ٹوکری تھامے میرا نام پکار پکار کے نہ تھکتے تم۔۔ میں مڑ کے نہ دیکھتی کہ کہیں پتھر کی نہ ہو جاؤں۔۔ پھر میرے رب نے جو میری شہ رگ سے نزدیک ہے مجھے نوید سنائ جاؤ لڑکی۔۔تماری آزمائش مکمل ہوئ جاؤ جی لو۔۔جاؤ ہنس لو۔۔جاو کانوں میں شہد گھولتی سرگوشیوں کا سارا رس پی لو۔۔تمہارے حصے کا سارا درد تمام ہوا یہ میرے رب کی تھی جو شب حیات کی صبح بنکر طلوع ہوئ اور اس روز میرے آنگن کی بنجر کیاری میں سالوں سے بوئے سرخ گلاب اگ آئے تھے…!!
درىا بهرا كوزه.— !!!!