لکھ یار

سرگوشی……فیصل چوہدری

#سرگوشی
تمہاری وہ پہلی جھلک کسی سرگوشی کی طرح مبہم اور مدھم تھی جو میری نظر کو گدگدا کے میری سوچ کو تجسس اور کھوج کی وادیوں میں دھکیل گئی تھی۔
میں اس ایک پل میں جیسے قید ہو کے رہ گیا تھا۔
تم ارد گرد سے بے نیاز جیسے کوئی ساکت تصویر کسی دیوار پہ ٹانکی ہوئی بے پرواہ پڑی تھی ۔
جب میرے تجسس نے جوش مارا اور اس سے پہلے کہ میں اس جھلک کی دلکشی کو تھام لیتا، تم کسی ادھ کہی سرگوشی کی طرح فضا میں تحلیل ہو گئی تھی۔
کتنے شب و روز میں اس ایک جھلک کی جستجو میں بےسمت گھومتا رہا۔
پھر جیسے تم وقت کی انگلی پکڑے کسی سرگوشی کی طرح بے چاپ قدموں سے چلتی میرے سامنے آ کے بیٹھ گئی تھی مگر پھر وہی ساکت، گرد راہ سے اٹی بے جان تصویر اپنے وجود کی دیوار سے ٹانکی ہوئی۔
تب میرے اندر کی سرگوشیاں دھیرے دھیرے میرے لبوں پہ ناچنے لگیں
کتنی بار میں نے چاھا کہ لپک کے اس گرد کو اڑا دوں اور تمہارے بے نور رنگوں میں روشنی بھر دوں۔ لیکن تم کسی قلعے میں قید صدیوں پرانی شہزادی کی مانند بے پرواہ پڑی رہی۔
آخر ھمارے مقدروں نے وقت کی بیڑیوں سے بغاوت کردی اور تم کسی سرگوشی کی طرح میرے دھیان سے اتر کر میرے ہاتھوں میں آ گری تھی۔
جیسے دو ہتھیلیوں کو جوڑنے پہ ہاتھ سے گرتی آدھی آدھی لکیریں اک دوسرے سے مل کے اک دوسرے کو تھام لیتی ہیں اور اک کشتی بناتی ہیں اسی کشتی پہ تیرتی تمہاری دعاوں جیسی سرگوشیاں آسمانوں سے اوپر پہنچ گئی تھیں۔
اور آج وہ سرگوشیاں گویا نغموں میں ڈھل گئی ہیں تو میرے آنگن کی کیاریوں میں خوشیوں کی پھول جوق در جوق خوشبوئیں بکھیرتے اور مسرتوں کے قافلے گیت گاتے ٹھہر گئے ہیں۔
میرے تمہارے پرتو کے ننھے شگوفے کلکاریاں مارتے میٹھے میٹھے سروں میں گنگناتے رہتے ہیں ۔
وہ سرگوشیاں اب سروں کا سنگیت پہن کے میری صبحوں میں چہچہاتی ہیں اور راتوں کو جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button