لکھ یار

سرگوشی…………..ہارون

میں ساحل سمندر پر ہوا کی سرگوشیاں سُن رہا تھا دل میں یاد سرگوشیاں کرنے لگی آنکھ سے ایک قطرے نے لہروں کے کان میں سرگوشی کی تو سمندر اُبل پڑا میں نے یاد اور قطرے دونوں کی سر گوشی سُن لی میں چُپ رہا بولا نہیں جیسے میں نے کچھ سُنا ہی نہیں یاد میں محبوب نے اُبلتے سمندر کا سبب پوچھا میں نے ہاتھ گُھما دئے جیسے کوئی انجان کیہتا ہے مجھے کیا پتا جیسے میں کوئی اجنبی ہوں لہریں اتنی بلند ہوئیں کہ محبوب کے پاوں کی ریت اُکھڑنے لگی لہروں کے شور سے میرے کان پھٹنے لگے خاموشی کی سرگوشی بہت شوریدہ تھی پوچھنے والا پوچھتا رہا میں نے کہا کہاں ؟سمندر ؟کونسی لہریں ؟ اب میں یاد آنے والے محبوب سے انجان تھا اور وہ مجھے پہچان رہا تھا میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا بے اختیار ہنسی کس خیال کی سرگوشی تھی ؟ خیال سرگوشی لگا محبوب کا عکس آنکھ میں سر گوشی لگا محبت دل میں سرگوشی لگی چیختا ہے وہ کبھی زور سے بلاتا ہے سامنے آنکھ کے وہ ہاتھ بھی ہلاتا ہے اُس کی صورت ہی گُھل گئی نگاہوں میں سامنے ہوتا ہے میں دیکھ نہیں پاتا ہوں 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button