سوچو اور لکھو
بہترین دنوں کے لیے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے
تحریر : ایمان گل
گگن کو مہکانے کے لیے بیج کو تہ خاک جانا پڑتا ہے۔ چمن کو گلوں سے سجانے کا عزم لیے بیج کو ساری رکاوٹیں تحلیل کرنے کے لیے دباٶ اور سخت گرمی میں ایک مخصوص وقت گزرنا پڑتا ہے۔
نارنجی رنگ کے مکئی کے دانے تپتی ریت میں اجلی اجلی پریوں میں بدلتے جاتے ہیں۔ ایک مختصر وقت کی بھٹی کی تپش سے ساری کڑاہی میں مکئی چٹختی جاتی ہے اور دودھیا پھول نمودار ہونے لگتے ہیں۔
زندگی میں تپش کے لمحے مختصر سہی مگر تواتر ہیں۔ روشنی اور اندھیروں کا ایک سلسلہ ہے۔ اندھیرے جتنے بھی طویل ہوں مگر یہ مسلسل روشنی کے درمیان محض ایک وقفہ ہے۔ جو مسرت کے لمحوں کی سرفرازی بڑھاتے ہیں۔ اگر مایوسی مضبوط دلوں اور روحوں پر حاوی نہ ہو تو یہ تاریک وقفے انسان میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شفافیت بھرتے ہیں۔ یہی تاریک لمحے تو نعمت ہیں۔
مایوس دل انھی مختصر تاریک لمحوں میں کچے گھڑے کی طرح گھل جاتے ہیں۔
انڈے کی آہنی جیل سی دیواروں میں پلتی جان اکیس دن کا سفر کرتی ہے۔ ان اکیس دنوں کی خوراک اس وجود کے لیے انڈے کے اندر جب ختم ہو جاۓ تو یہی لمحے جان لیوا بھی ہیں اور زندگی بخش۔
ان لمحوں میں سعی اور جہد تسلسل کرنے والی گداز جان کو ہی زندگی اپنی رونق بخشتی ہے۔ رحم مادر سے زندگی کے آغاز کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔
مسلسل جست و چاہت میں ہی زندگی کی نوید پنہاں ہے۔