کتاب تبصرہ خوش بخت ہمدانی
کتاب: لبیک
مصنف: ممتاز مفتی
تحریر: خوش بخت ہمدانی
لبیک اگر ظاہری طور پر دیکھیں تو ایک سفرنامہ ہے، حج کا سفرنامہ۔۔۔ لیکن تھوڑی سی گہرائی میں جاکر دیکھیں تو کسی کے دل کا احوال ہے جو حج کے اس سفر کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے….. کسی کی اللہ سے دل لگی، ناراضی، شکرانہ، روٹھنا، منانا، لاڈ، پیار، گلہ شکوہ اور پھر خود ہی اس سے لگاؤ یہی سب تو ہے جو جگہ جگہ کتاب میں نظر آ رہا ہے۔۔۔۔۔
میں نے یہ کتاب آج سے تقریبا چھ سات سال پہلے پڑھی تھی اور پھر۔۔۔ پھر ہر سال پڑھتی رہی۔۔۔۔ کبھی سال میں بھی دو بار۔۔۔۔۔ کبھی مکمل پڑھی تو کبھی کچھ کچھ حصے ۔۔۔۔ اس سال جب میں اس کتاب کو اٹھا کے لائی تو ایک کزن کہنے لگی اتنی بار پڑھ لی ہے تو بور نہیں ہوتی تو میں تب بولی کہ یہ کتاب بور ہونے ہی نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔ یہ تو شاید میری زندگی میں ایک راہنما کے طور پر شامل ہے۔۔۔۔۔۔ جب بھی کبھی کوئی نیا کام شروع کرناہو، کوئی مشکل پیش آئے، کوئی رکاوٹ ہو تو مفتی جی فورا سے سامنے آ جاتے ہیں کہ بھئی ہمت نہیں ہارنی،
” جہاں پہنچنے کا خطرہ ہو، وہاں راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں”
یہ لبیک ہی ہے جس نے سکھایا کہ کوئی بات ہو، کوئی پریشانی یا کچھ بھی اللہ ہے ناں، اس سے کہہ دو۔۔۔۔ سب کہہ ڈالو۔۔۔۔۔ وہ تو انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ میرا بندہ آئے اور مجھ سے باتیں کرے اور کرتا ہی جائے۔۔۔۔
وہی تو ہے جو ہمارے لیے اداس بھی ہوتا ہے۔۔۔ ہمیں آواز بھی دیتا ہے اور ہمارے آنے پر باغ باغ ہو جاتا ہے۔۔۔۔ بس اسی سے کہہ ڈالو سب ۔۔۔۔ چاہے اس کی تعریف ہو یا پھر اس کے کسی بات پہ اختلاف اسی سے کہو دل کی اور اسی سے پوچھو، پھر وہ سارے جواب دے دے گا۔۔۔ سوال ہوتا ہے تو جواب بھی ملتا ہے۔۔۔۔ جواب دے دیاجاتا ہے۔۔۔۔ لیکن تب جب سوال بھی تو ہو۔۔۔۔۔
سفرنامے کا آغاز ہوتا ہے مفتی جی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور چند خوابوں سے جن میں انہیں حج کی ادائیگی کی اطلاع دی جارہی ہوتی ہے جبکہ انکا اپنا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔۔۔۔ لیکن جب وہ تیار ہوجاتے ہیں کہ ہاں حج پر توجانا ہے، تو پھر کیا ہوا ؟؟؟
مفتی جی کےبقول:
“بن مانگے موتی ملیں مانگے ملے نہ بھیک”
بہرحال چند سالوں کی تاخیر کے بعد مفتی جی قدرت اللہ شہاب اور ان کی اہلیہ عفت شہاب کے ساتھ حج کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں ۔۔۔اس دوران مفتی جی کی عقیدت بھری کیفیات دل کو بہت قریب لگتی ہیں اور پڑھنے والا یہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ تو میرے دل کی بات کی ہے۔۔۔۔ اس کے بعد کے واقعات اور حج کے ارکان تو بیان کیے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ قدرت اللہ شہاب کے ساتھ کی گئی گفتگو بھی ایک الگ ہی طرف لے جاتی ہے پڑھنے والے کو۔۔۔۔۔۔
ساتھ ہی مفتی جی حج کے دوران کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں ان کے متعلق بھی سمجھاتے ملتے ہیں۔۔۔۔۔ جیسے وہ افسر جو حج کرنے آیا تھا اور بچوں کو مسجد نبوی میں ہنسنے کھیلنے سے روک رہا تھا بلکہ ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔ اس کے خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آنا اور ناراض ہونا اور پھر اگلے ہی روز اس کا پاکستان واپس بلا لیا جانا۔۔۔۔ ایسے اور بہت سے واقعات ہیں جو یہ سمجھا رہے ہیں کہ اپنے اندر کے ڈسپلن انچارج، مذہبی نقاد، وغیرہ وغیرہ کو کہیں دور رکھ کہ ان پاک ہستی کے در پہ آنا ہوتا ہے کہ یہاں پر تو بڑے بڑے اپنے عمامے، دستاریں اتار کر آتے ہیں اور واپسی پہ ان کے ملنے کا بھی کچھ علم نہیں کہ ملیں نہ ملیں۔۔۔۔۔۔۔
بازار میں شیطان کوبھی مفتی جی بہت طریقے سے سمجھا گئے۔۔۔۔اور کیسے یہ شیطان اس کالے کوٹھے کے والی سے اس کے بندوں کا دھیان ہٹا کر اپنی طرف لگا دیتا ہے۔۔۔۔۔
مفتی جی کے انداز میں اپنائیت ہے، ایک بچہ نظر آنے لگتا ہے جو باتیں کیے جارہا ہے کیے جارہا ہے اور تب لگتا ہے بھئی یہ تو ہم ہی ہیں، یہ تو ہماری ہی بات ہو رہی ہے، یہ تو ہمارے ہی دل کی بات ہے۔۔۔۔۔۔
میں اس بہترین کتاب کے تبصرہ کا حق ادا تو نہیں کر پائی پر یہ کتاب اپنے آپ میں ایک شاہکار ہے۔۔۔۔۔ یہ ایک والہانہ انداز رکھنے والی شخصیت کی تصنیف ہے جو ہمیں تقویت دیتی ہے ہماری سوچوں کو تقویت دیتی ہے۔۔۔۔ اگر آپ بھی اللہ کو خالق اور مالک سےبڑھ کر ایک دوست، ایک راہنما،ایک ساتھی سمجھتے ہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھیے۔۔۔۔اور اس دوست کےساتھ لاڈ کرنے میں مصروف ہو جائیے۔۔۔۔